Book Name:Ghous-e-Pak Ki Naseehatain

بسا اَوْقات ماں باپ غربت سے تنگ آکر اپنے بچوں کاگلا دبا  دیتے ہیں ، پھر خود کشی کر لیتے ہیں مگر ہماری عیش و عِشْرت میں کمی نہیں آتی ، نفلی صدقہ و خیرات تو کیا کرنا تھا ، جن پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے وہ پُوری زکوٰۃ بھی نہیں نکالتے۔ مُعَاشرے میں غُرْبت ، اِفْلاس ، تنگ دستی ، غم ، دُکھ ، پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں  اور دوسری طرف ہمدردی ، خیر خواہی ، غم خواری اور سخاوت کے جذبات بھی کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ذرا غور کیجئے!   ہمارے اَسْلاف ، بزرگانِ دِین غریبوں ، بےسہاروں ، غم کے ماروں سے کیسی محبت کرتے تھے ، کس حسین انداز سے اُن کی دِل جُوئی کیا کرتے تھے اور ہم سیلفی بنا کر ، ویڈیو بنا کر بے چارے غریب کی غُربت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ ایسے دلخراش واقعات بھی دیکھنے کو ملتے ہوں گے کہ کسی غریب کی مالی مدد کرنے والا ، کوئی راشن دینے والا ، کھانے پینے کی چیزیں دینے والا ایک ہی بندہ ہوتا ہے مگر آٹھ ، دس (8-10) افراد اس کے ساتھ مِل کر تصویریں بنوا رہے ہوتے ہیں ، سوشل میڈیا پر دکھا رہے ہوتے ہیں کہ جیسے ان سب نے اُس غریب کی مدد کی ہے ، غور کیجئے! ایسے موقع پر اس غریب پر کیا گزرتی ہو گی...؟

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی              ثُریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا

جب ہمارا یہ حال ہے ، ہم اپنے بزرگوں کی سیرت سے بالکل مخالف سمت پر چل رہے ہیں ، اُن کے بتائے ہوئے طریقوں سے بہت دُور ہیں تو ہمارے معاشرے کا حال بھی دیکھ لیجئے! آج لوگ سکون کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں ، معاشرے میں بےچینی بڑھتی ہی جا رہی ہے ، ایک عجیب کشمکش ہے ، تنگ دستی ہے ، گھروں کے سکون برباد ہیں ، پریشانیاں ، لڑائی جھگڑے ، مارا ماری ، بےروزگاری ، قتل و غارت گری ، اغوا ، بےحیائی کیا