Hajj Kay Fazail or Is Kay Ahkamaat

Book Name:Hajj Kay Fazail or Is Kay Ahkamaat

احرام کی پابندیوں کی مخالفت کرے گا تو گناہگار بھی ہوگا اور فدیہ دینا بھی لازم آئے گا اور مجبوری کی وجہ سے مخالفت کرے تو گناہگار نہ ہوگا لیکن فدیہ دینا پڑے گا البتہ مجبوری والے کو فدیے میں کچھ رخصتیں بھی دی گئی ہیں چنانچہ صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : “ جہاں دَم کا حکم ہے وہ جرم اگر بیماری یاسخت گرمی یا شدید سردی یا زخم یا پھوڑے یا جوؤں کی سخت ایذا کے باعث ہوگا تو اُسے جُرمِ غیر اختیاری کہتے ہیں اس میں اختیار ہو گا کہ دَم (قربانی) کے بدلے چھ مسکینوں کو ایک ایک صدقہ دے دے یا دونوں وقت پیٹ بھر کھلائے یا تین روزے رکھ لے۔ اور اگر اس (جرم)میں صدقہ کا حکم ہے اوربمجبوری کیا تو اختیار ہوگا کہ صدقہ کے بدلے ایک روزہ رکھ لے ۔ (بہارِ شریعت ، حصہ ششم ، جرم اور ان کے کفارے کا بیان ، ۱ / ۱۱۶۲)

{فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ : تو جو حج سے عمرہ ملانے کا فائدہ اٹھائے۔ } جو شخص ایک ہی سفرمیں شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرے اس پر شکرانے کے طور پر قربانی لازم ہے اور یہ قربانی عید کے دن والی قربانی نہیں ہوتی بلکہ جداگانہ ہوتی ہے اوراگر قربانی کی قدرت نہ ہو تو اسے حکم ہے کہ دس روزے رکھے ، ان میں سے تین روزے حج کے دنوں میں یعنی یکم شوال سے نویں ذی الحجہ تک احرام باندھنے کے بعد کسی بھی تین دن میں رکھ لے ، اکٹھے رکھے یا جدا جدا دونوں کا اختیار ہے اور سات روزے 13ذی الحجہ کے بعد رکھے۔ مکہ مکرمہ میں بھی رکھ سکتے ہیں لیکن افضل یہ ہے کہ گھر واپس لوٹ کر رکھے۔ (بہار شریعت ، حصہ ششم ، ۱ / ۱۱۴۰-۱۱۴۱ ، ملخصاً)

{حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مکہ کے رہنے والے۔ } حجِ تمتع یا حجِ قِران کا جائز ہونا