Baap Kay Huqooq

Book Name:Baap Kay Huqooq

برداری کے تعلق سے)اپنے کلام میں فرمایا ہے ، صورتِ ہذا میں اس نے خلافِ فرمودہ ٔ خدا کیا ، وہ منکرِحکمِ خداہوا  یا نہیں؟ اور  منکرِکلام ربانی کے واسطے کیا حکمِ  شرع شریف ہے؟ اور وہ کہاں تک گنہگار ہے؟

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا : پسر ِمذکور(وہ بیٹا جس کا ذکرہوا) فاسق ، فاجر ، مُرتکبِ کبائر(اور)عاق(باپ کا نافرمان) ہے اور اسے سخت عذاب وغضبِ الٰہی کا استحقاق(حق داری) ، باپ کی نافرمانی اللہُ جبار و قہار کی نافرمانی  ہے اورباپ کی ناراضی اللہُ جبار وقہار کی ناراضی ہے ، آدمی ماں باپ کو  راضی کرے تو وہ اس کے جنت ہیں اور ناراض کرے تو وہی اس کے دوزخ ہیں۔ جب تک باپ کو راضی نہ کرے گا اس کاکوئی فرض ، کوئی نفل ، کوئی عمل نیک اصلاً قبول نہ ہوگا ، عذابِ آخرت کے علاوہ دنیا میں ہی جیتے جی سخت بلاء نازل ہوگی ، مرتے وقت معاذَ اﷲ کلمہ نصیب نہ ہونے کاخوف ہے۔                               (فتاویٰ رضویہ ، ۲۴ / ۳۸۳ تا۳۸۶ملتقطاً)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                            صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!بساا وقات والِدَین میں کسی وجہ سے جدائی ہوجاتی ہے ، اس صورت میں بچے شدید کشمش میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ماں کا ساتھ دیں یا باپ کا ، اَلْحَمْدُلِلّٰہ امیرِ اہلِ سُنَّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اس کا بہترین حل ارشاد فرمایا ہے آئیے! سُنتے ہیں ، چنانچہ

والِدَین میں علیحدگی کی صورت میں اَولاد کیا کرے ؟

امیرِ اہلِ سُنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے عرض کی گئی : اگر والِدَین میں علیحدگی ہو