Baap Kay Huqooq

Book Name:Baap Kay Huqooq

                             اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : اگر زید کاباپ اپنی خوشی سے حسبِ عادت جاتا ہے تو زید پر الزام نہیں اگرچہ مقتضائے سعادتمندی(سادت مندی کا تقاضا) یہ ہے کہ اسے آرام دے  اور خود کام کرے ، ہاں!اگرزید اسے مجبور کرتاہے تو ضرور گنہگار و نالائق ہے ، باپ کا مال بیٹے کو اس کی رضا سے قدرِ رضا تک حلال ہے ورنہ حرام ، شریک ہوں خواہ جدا ، باپ کا حق بیٹے پر ہمیشہ رہتاہے ، یونہی بیٹے کاباپ پر ، ہاں!بعض حقوق وقت تک محدود ہیں جیسے لڑکا جب جوان ہوجائے(تو) باپ پر اس کا نفقہ واجب نہیں رہتا۔ (فتاویٰ رضویہ ، ۲۳ / ۵۴۵)

                             رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : زیادہ اِحسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں  کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ کے اِنتقال کر جانے یا کہیں  چلے جانے)کی صورت میں  اِحسان کرے۔ ( مسلم ، کتاب البرّ والصلة والآداب ، باب فضل صلة اصدقاء الاب والامّ ونحوھما ، ص۱۰۶۱ ، حدیث : ۶۵۱۵) یعنی جب باپ مرگیا یا کہیں چلا گیا ہو۔ (بہار شریعت ، ۳ / ۵۵۱ ، حصہ : ۱۶)دوسری حدیث میں ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ماں باپ کے ساتھ نکو کاری کے طریقوں میں یہ بھی شمار فرمایا : وَاِکْرَامُ صَدِیْقِھِمَا ان کے دوست کی عزت کرنا۔ (ابوداود ، کتاب الادب ، باب فی برّ الو الدین ، ۴ / ۴۳۴ ، حدیث : ۵۱۴۲)

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہسے پوچھا گیا : پسر(بیٹے)نے اپنے باپ کی نافرمانی اِختیار کر کے کُل جائیدادِ پدر(باپ کی تمام جائیداد)پر قبضہ کرلیا اور باپ کے پاس واسطے اوقاتِ بسری کے کچھ نہ چھوڑا بلکہ درپَے تذلیل وتوہینِ پدر کے(باپ  کو ذلیل کرنے اور ان کی توہین کرنے کے چکر میں)ہے اور اللہ جَلَّ شانُہ  نے واسطے اِطاعتِ پدر کے(باپ کی فرما ں