Book Name:Meraj K Mojzaat 27 Rajab 1442

سکتی تھی ، لِہٰذا آپ نے بادشاہ کے تمام سُوالوں کے سچ سچ جواب دئیے۔ حضرت ابوسفیان  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کی زبانی پیارے آقا ، مدینے والے مصطفےٰ  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کے اَوْصاف سُن کر بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ یہ وہی نبی ہیں ، جن کے تشریف لانے کی خوشخبری حضرت عیسیٰ  عَلَیْہِ السَّلام  نے دِی تھی ، حضرت ابوسفیان ابھی بھی سوچ رہے تھے کہ آخر کس طرح بادشاہ کی نظر میں مُحَمَّد ( صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم ) کی عِزَّت کم کی جائے (مَعَاذ اللہ) ، پھر اچانک انہیں مِعْراج کا واقعہ یاد آیا ، بولے : اے بادشاہ! ایک بات ہے ، اسے سُنتے ہی آپ جان جائیں گے کہ مُحَمَّد ( صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  معاذ اللہ!) جھوٹے ہیں۔ بادشاہ نے کہا : بتاؤ! وہ کون سی بات ہے؟ کہا : مُحَمَّد ( صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم ) کا کہنا ہے کہ وہ ایک روز رات کے وقت مکہ مکرمہ سے چلے اور مسجدِ اَقْصیٰ پہنچے ، پھر اُسی رات صبح ہونے سے پہلے پہلے مسجدِ اَقْصیٰ سے واپس  مکہ مکرمہ بھی پہنچ گئے۔ بَس اتنا سننا تھا کہ بادشاہ کے قریب ہی بیٹھا ہوا اَیک پادری بول اُٹھا : بادشاہ سلامت! میں اُس رات کے متعلق جانتا ہوں۔

بادشاہ نے پادری پر ایک ترچھی نگاہ ڈالی اور حیرانی سے پوچھا : تم اس بارے میں کیا جانتے ہو؟ پادری بولا : عالی جاہ! میرا مَعْمُول ہے ، میں ہر روز رَات کو مسجدِ اَقْصیٰ کے دروازے بند کر کے سوتا ہوں ، ایک روز جب میں دروازے بند کر رہا تھا ، ایک دروازہ پُورا زَور لگانے کے باوُجود بھی نہ جانے کیوں بند ہی نہیں ہو رہا تھا ، میں نے مسجد میں مَوْجُود لوگوں کو مدد کے لئے بُلایا ، پھر ہم سب نے مِل کر زور لگایا مگر وہ دروازہ تھا یا پہاڑ ، ہم سب کی پُوری کوشش کے باوُجود بند ہونا تو دُور کی بات دروازے نے معمولی سی حرکت بھی نہ کی ، آخر ہم نے بڑھئی کو بُلایا ، اس نے بھی اپنی پُوری کوشش کی مگر دروازہ تھا کہ اپنی جگہ سے بالکل بھی حرکت نہیں کر رہا تھا ، تھک ہار کر ہم نے دروازہ یونہی کھلا چھوڑا اَور اپنے اپنے گھر چلے گئے ، صبح جب میں مسجد