Book Name:imam Ghazali Ki Taleemat

محترم دُنیا سے رخصت ہو گئے۔ چنانچہ گھر کے مُعَاشِی حالات تنگ ہونے لگے ، اس کے باوُجُود امام غزالی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے مدرسے کا رُخ کیا اور عِلْمِ دین سیکھنے میں مَصْرُوف ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے علاقے طُوس میں اپنے والد کے دوست امام احمد بن محمد رَاذْکَانی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  سے حاصِل کی ، پھر جُرجان تشریف لے گئے ، وہاں امام ابو نصر اسماعیلی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  سے عِلْم حاصِل کیا ، پھر نیشاپور تشریف لائے اور کئی سال امام الحرمین امام جُوَیْنِی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  سے عِلْم دین سیکھتے رہے۔ ([1])

امام غزالی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کا معمول تھا ، جو کچھ استاد سے سیکھتے اسےلکھ کر نوٹس کی صُورت میں محفوظ کرتے رہتے تھے۔ جب آپ جُرجان سے واپس تشریف لا رہے تھے ، راستے میں ڈاکوؤں نے حملہ کیا ، قافلے کا تمام سامان لُوٹ لیا گیا ، اس حادثے میں امام غزالی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کے علمی نوٹس بھی ڈاکوؤں کے ہاتھ لگ گئے۔ آپ کو اس کا بہت صدمہ ہوا ، چنانچہ آپ ڈاکوؤں کے سردار کے پاس تشریف لائے اور اللہ کریم کی بارگاہ میں حاضِری کا منظر یاد دِلا کر فرمایا : میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ میرے نوٹس لوٹا دو ، اس میں تمہارے فائدے کی کوئی چیز نہیں۔ اس پر ڈاکوؤں کے سردار نے ایک قہقہ لگایا اور طنزیہ لہجے میں بولا : تمہیں عِلْم پر عُبُور کیسے ہو سکتا ہے؟ حالانکہ یہ نوٹس چھن جانے سے تم بالکل کورے ہو گئے ہو۔

بَس یہ ایک جملہ تھا ، جس نے امام غزالی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کے دِل پر گہرا اَثر کیا ، فرماتے ہیں : میں سمجھ گیا تھا کہ یہ بات ڈاکوؤں کے سردار نے کہی نہیں ہے بلکہ میری راہنمائی کے لئے اللہ پاک نے اس کی زبان سے کہلوائی ہے ، چنانچہ میں نوٹس لے کر اپنے وطن پہنچا اور


 

 



[1]   فیضانِ امام غزالی، صفحہ:10، 12، 15،ملتقطًا۔