Book Name:Apni Bahen Se Naik Sulok Kijiye

اپنی بیٹیاں ہوں یا بہنیں ہوں یا یتیمہ بچیاں ، قیامت میں حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے قُرب کا ذریعہ ہے اور جسے اس دن حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا قُرب نصیب ہو جائے اسے سب کچھ مل جائے۔ ([1])

گر محمد کا ساتھ ہو جائے                     پھر تو سمجھو نجات ہو جائے

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                                                                  صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

حضور  صَلَّی اللہِ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا اپنی رضاعی بہن سے اچھا سلوک

                             پیارے اسلامی بھائیو!حضرتِ جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کو بہنوں کےساتھ اچھے سُلُوک کا جذبہ جس در سےملا ، اُس کے بھی کیا کہنے! یعنی میرے پیارے پیارےآقا ، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی یہ شان تھی کہ جنگ اَوطاس میں جب دشمن کو شِکَسْت ہوئی توجنگی قیدیوں میں حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رَضَاعی بہن اور حضرت سیدہ حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کی صاحبزادی حضرت سیّدہ شِیْمَاء رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا بھی گرفتار ہوئیں ، جب انہیں شناخت کے لیے آپ کی بارگاہ میں حاضر کیا گیا تو انہیں پہچان کر جوشِ محبت میں آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے اپنی چادر مبارک زمین پر بچھا کر انہیں بٹھایا اور پھر کچھ اونٹ اور بکریاں دے کر ارشادفرمایا : تم آزاد ہو ، اگر تمہارا جی چاہے تو میرے پاس رہو اور اگر اپنے گھر جانا چاہو تو میں تمہیں وہاں پہنچا دیتا ہوں۔ انہوں نے اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو انتہائی عزت و اِحْتِرام کے ساتھ انہیں ان کے قبیلے میں پہنچا دیا گیا۔ ([2])


 

 



[1]    مراٰۃالمناجیح ، ۶ / ۵۴۶

[2]    شرح الزرقانی ، المقصد الاول ، الفصل غزوة اوطاس ، ۳ / ۵۳۴ ملخصاً