Book Name:Shan e Bilal e Habshi
سے بچالیں جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ تو اَمیرالمومنین حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُنے فرمایا : میرے پاس بلال سے زیادہ تندرست و طاقت ور غلام (یعنی خادم) ہے ، بلال مجھےدےکروہ تم لےلو۔ کہنے لگا : منظور ہے ، تو امیرُالمؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نےاُمیّہ کواپنا غلام دے کرحضرت بلالِ حبشی رَضِیَ اللہُ عَنْہُکو لےلیااور اُنہیں آزادکردیا۔ (حلیۃ الاولیاء ، بلال بن رباح ، ۱ / ۱۹۹ ، رقم : ۴۸۶)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
اےعاشقان ِصحابہ!آپ نے سنا کہ حضرت بلالِ حبشی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو راہِ خدا میں کتنی آزمائشیں آئیں ، لیکن پھربھی باطل کے آگے اپنا سر نہیں جھکایا ، گویا ان کی یہ سوچ تھی کہ جان جاتی ہے تو چلی جائےمگر دینِ اسلام کو چھوڑکر باطل کے آگےسرنہ جھکنےپائے۔ ان کایہ عمل ہمیں یہ سبق دیتا ہےکہ راہ ِحق میں اپناسب کچھ بھی لُٹانا پڑے تو لُٹادیا جائے لیکن حق کا ساتھ نہ چھوڑا جائے اور ڈٹ کر باطل کا مقابلہ کیا جائے۔ دنیا میں اس کابدلہ اگرچہ کچھ نہ ملے لیکن ایسےلوگوں کی یقیناً آخرت سنورجاتی ہے ، بارگاہِ الٰہی سےاِنعامات واِکرامات کی بارشیں برستی ہیں۔
حضرت بلالِ حبشیرَضِیَ اللہُ عَنْہُآخِری دم تک اِخلاص اور اِستِقامت کےساتھ دینِ اِسلام پر ثابت قدم رہے ، راہِ خدا میں جان کی بازی لگادی مگر آپ کی ثابت قدمی میں ذرّہ بَرابَربھی کمی نہ آئی ، دینِ اِسلام قبول کرنے کے بدلے میں مظلومانہ زندَگی گزار نے کے باوجودبھی کبھی زبان پرشکوہ نہیں آیا۔ اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو محبّتِ صحابہ کادم تو بھرتےہیں مگرمعمولی سی خراش پر شور مچا دیتے ہیں ، ذرا سی تکلیف پہنچنے پر بےصبری کامظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔
ذرا سوچئے!حضرت بلالِ حبشی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اس قدر تکلیفیں برداشت کرنے کےباوجودبھی گویا زبانِ