Book Name:Koshish Kamyabi Ki Kunji Hai
لئےاِس اِنْتِظار میں ماں کے قریب کھڑا رہا کہ بیدار ہوں تو پانی پیش کروں ، کھڑے کھڑے کافی دیر ہوچکی تھی اور گلاس سے کچھ پانی گِر کر میری اُنگلی(Finger) پر جم کر برف بن گیا تھا ۔ بہر حال جب والِدۂ محترمہ بیدار ہوئیں تو میں نے گلاس پیش کیا ، برف کی وجہ سے چپکی ہوئی اُنگلی جُوں ہی پانی کے گلاس سے جُدا ہوئی اُس کی کھال اُدھڑ گئی اور خون بہنے لگا۔ ماں نے دیکھ کر پوچھایہ کیا؟ میں نے سارا واقعہ عَرض کیا تو اُنہوں نے ہاتھ اُٹھا کر دُعا کی : اے اللہ! میں اِس سے راضِی ہوں تُو بھی اِس سے راضِی رہنا ۔ (سمندری گنبد ، ص۴)
حضورغوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ جب علمِ دین حاصل کرنے کےلئے قافلے کے ہمراہ جیلان سے بغدادروانہ ہوئے ، جب ہمدان سے آگے پہنچے تو ساٹھ(60) ڈاکو قافلے پر ٹُوٹ پڑے اور ساراقافلہ لُوٹ لیا۔ حضور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : کسی نے مجھ سے نہ پوچھا ، ایک ڈاکو میرے پاس آکر پوچھنے لگا : اے لڑکے!تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ میں نے جواب میں کہا : ہاں۔ ڈاکو نے کہا : کیا ہے؟میں نے کہا : چالیس (40) دِینار۔ اس نے پوچھا : کہاں ہیں؟میں نے کہا : گُدڑی کے نیچے۔ ڈاکو اس کومذاق تصور کرتا ہواچلا گیا ، اس کے بعد دوسرا ڈاکو آیااور اس نے بھی اسی طرح کے سوالات کئے ، میں نے یہی جوابات اس کوبھی دیئے اور وہ بھی اسی طرح مذاق سمجھتے ہوئے چلتا بنا ، جب سب ڈاکو اپنےسردار کے پاس جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سردار (Chief) کو میرے بارے میں بتایا تو مجھے وہاں بُلا لیا گیا ، وہ مال کو تقسیم کرنےمیں مصروف تھے۔ ڈاکوؤں کا سردارمجھ سے مخاطب ہوا : تمہارے پاس کیا ہے؟میں نے کہا : چالیس(40)دِینار ہیں ، ڈاکوؤں کے سردارنے ڈاکوؤں کوحکم دیتے ہوئے کہا :