Book Name:Aala Hazrat Ki Shayri Aur Ishq-e-Rasool

       پىارے پىارے اسلامى بھائىو!ہم اعلیٰ حضرت کی شاعری اور عشقِ رسول سے مُتَعلِّق سُن رہے تھے۔ چاند کا ذکر شعر و شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ محبوب کے حُسن کو ، محبوب کی خوبصورتی کو، محبوب کی دلکشی کو اورمحبوب کی رنگت کو چاند سے تشبیہ دینااردو شاعری میں بہت عام ہے۔ مگر جس طرح سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے چاند کو نعتِ محبوب کے لیے استعمال کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آئیے! اس کی چند مثالیں سنتے ہیں:

       (1)عموماً شاعر حضرات چاند کےحُسن کی تو بات کرتے ہیں مگر اس کےدَ ھبوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں، سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے عشق کے رنگ میں بتایا کہ چاند پر دَھبے کیوں ہیں؟ چنانچہ فرماتے ہیں:

برقِ اَنگُشْتِ نبی چمکی تھی اُس پر ایک بار

آج تک ہے سِینۂ مہ میں نشان ِ سوختہ

(حدائقِ بخشش، ص۱۳۶)

       یعنی سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک ہاتھ کی نورانی انگلی ایک مرتبہ چمک کر چاند پر پڑی مگر آج تک چاند کے سینے میں جلن کا نشان موجود ہے۔

       (2)پھر ایک اور شعر میں چاند کو یہ داغ مٹانے کا طریقہ بھی بتاتےنظرا ٓتے ہیں ، چنانچہ قصیدۂ معراج میں فرماتے ہیں:

سِتَم کِیا کیسی مَت کٹی تھی قمر! وہ خاک اُن کے رہ گُزر کی

اُٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھتا مٹے تھے

(حدائقِ بخشش، ص۲۳۲)