Book Name:Baap Jannat Ka Darmiyani Darwaza He

چھوڑ آتی ہے،جہاں اسے اولاد کے ساتھ گزارے لمحات اوران کی یادیں بے حد ستاتی اور خوب رُلاتی ہیں،ماں باپ ہرگزرتے دن یہی امید لگاتے ہیں کہ شاید آج میرا وہ لختِ جگر مجھے لینے آئے گا جس کو میں نے  بڑی مشقتوں سے اپنے خونِ جگر سے پالاتھا،جس کی بیماری پراس کا علاج کراتے ہوئے میری رات کی نیندیں قربان ہوئی تھیں،آج میرا وہ بیٹا لینے آئے گا جس کی دِل لُبھاتی آوازسے میری دن بھر کی ساری تھکن دُورہوجاتی تھی،میرا بیٹا مجھے سینے سے لگائے گا،مجھے گھرلے جائے گامگر آہ!صبح و شام گزرتے جاتے ہیں لیکن نہ کوئی لینے آتاہے نہ ہی کسی کا فون آتاہے۔اَلْاَمَانْ وَالْحَفِیْظ

مشہور کہاوت ہے:”جیسی کرنی ویسی بھرنی“!تو آج اگر ہم اپنے باپ کے ساتھ اس طرح کا ناپسندیدہ سُلوک کریں گے تو ممکن ہے کل کو ہمارے بچے بھی ہمارے ساتھ اسی طرح کا سلوک کریں ،جیسا کہ

جیسا کروگے ویسا بھروگے

حدیثِ پاک میں ہے:کَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ یعنی جیسا کرو گے ویسا  بھرو گے۔([1])

حضرت علّامہ عبدُالرؤف مُناوی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہاس حدیث کی وضاحت میں لکھتے ہیں : یعنی جیسا تم کام کرو گے ویسا تمہیں اس کا بدلہ ملے گا،جو تم کسی کے ساتھ کرو گے وہی تمہارے ساتھ ہوگا۔ (التیسیر بشرح الجامع الصغیر،۲/۲۲۲)

اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ  عَلَیْہ لکھتے ہیں :بے عقل اور شریر اور ناسمجھ جب طاقت وتوانائی حاصل کرلیتے ہیں تو بوڑھے باپ پر ہی زور آزمائی کرتے ہیں اور اس کے حکم کی


 

 



[1] مصنف عبدالرزاق،کتاب الجامع،باب الاغتیاب والشتم،۱۰ / ۱۸۹،حدیث: ۲۰۴۳۰