Book Name:Ik Zamanna Aisa Aaega

شاپنگ کروائی ہے لہٰذا مجھے بھی کسی اچھے شاپنگ مال سے شاپنگ کروادیجئے،فُلاں کو دیکھو کتنا خوشحال ہوگیا ہے،آپ بھی تو کچھ کیجئے ،فُلاں کی تنخواہ لاکھوں میں ہے مگر آپ اتنا عرصہ کام کرنے کے بعد بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔‘‘وغیرہ جبکہ بچوں کی فرمائشیں اِس کے علاوہ ہیں۔تو آئے روز جب بندہ فرمائشوں اور طعنوں کو سُنتا ہے توذِہنی تکلیف اور مایُوسی اُسے ہر طرف سے گھیر لیتی ہے،اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا کہ آخر وہ کرے تو کرے کیا ،چونکہ اُسے بیوی بچوں کی فرمائشیں بھی پُوری کرنی ہوتی ہیں اور اُس کے پاس وسائل بھی کم ہوتے ہیں،لہٰذا وہ اُن کی جائز و ناجائز فرمائشیں پوری کرنے کے لئے حرام و حلال کی پروا کیے بغیرناجائز ذرائع اختیار کرکے اپنی قَبْر و آخرت کو داؤ پر لگادیتا ہے،جیسا کہ

حلال و حرام کے مُعامَلےمیں  بےپروائی

حضرت سَیِّدُنا ابُوہُرَیْرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے،نبیِّ اکرم صَلَّی اللّٰہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:يَاْتِى عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ،لاَ يُبَالِى الْمَرْءُ مَا اَخَذَ مِنْهُ اَمِنَ الْحَلاَلِ اَمْ مِنَ الْحَرَام یعنی  لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدَمی کو اِس بات کی کوئی پروا نہ ہوگی کہ اُس نے(مال)کہاں سے حاصِل کیا،حرام سے یا حلال سے۔

(بخاری، کتاب البیوع، باب من لم یبال من الخ،۲/۷، حدیث: ۲۰۵۹)

حکیمُ الاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ اِس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:یعنی آخر زمانہ میں لوگ دِین سے بے پروا ہوجائیں گے،پیٹ کی فِکْر میں ہر طرح پھنس جائیں گے،آمَدنی بڑھانے، مال جمع کرنے کی فِکْر کریں گے،ہر حرام وحلال لینے پر دِلیر(یعنی بے خَوْف) ہوجائیں گےجیسا کہ آج کل عام ہے۔‘‘(مرآۃالمناجیح،۴/۲۲۹)

      پیاری  پیاری اسلامی بہنو !ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھر والوں کو آزمائش میں مُبْتَلا