Book Name:Museebaton Per Sabr Ka Zehin Kaisey Banay

کانٹے بچھائے،نازک و مبارَک جسم  پر پتھر برسائے،تکلیفوں اور مصیبتوں کے پہاڑ توڑے ،طعنوں اور بد کلامی کا بازار خوب گرم کیا،پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ جو بھی رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کی سَعَادَت حاصل کرتا،یہ بدبخت لوگ اسے بھی طرح طرح کی تکلیفوں اورمصیبتوں میں گرفتار کر کے اِسلام سے پھیرنے کی کوششوں میں لگ جاتے،کسی کو تَنُّور کی طرح گرما گرم صحرائے عرب کی تیز دھوپ میں پیٹھ پر کوڑے مار مار کر زخمی کر کے جلتی ہوئی ریت پر پیٹھ کے بل لٹاتے اور سینے پر اتنا  بھاری پتھر رکھ دیتے کہ کروٹ نہ بدلنے پائے،کسی کے جسم کو لوہے کی گرم سلاخوں سے داغتے، کسی کو پانی میں اس قدر ڈُبکیاں دیتے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا اور کسی کو چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دُھواں دیتے، جس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا۔ غرض ایسے ایسے ظلم ڈھائے کہ اگر ان کی جگہ پہاڑ ہوتا تو شاید وہ ڈگمگانے لگتا،لیکن قربان جائیے،ان صبر و رضا کے پیکروں پر!جنہوں نے مصیبتوں اور پریشانیوں سے گھبرا کر نہ تو بے صبری کا مظاہرہ کیا،نہ چیخ و پکار کی اورنہ ہی کسی کے آگے اپنی تکالیف کا اظہار کیا بلکہ اللہ پاک کی رضا پر راضی رہے،مصیبتوں اور پریشانیوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا اور اللہ پاک کا  خاص قرب حاصل کیا۔

(3)مُحَرَّمُ الْحَرَام کا مہینا بھی ہمیں صبرو رضا کا درس دیتا ہے،یہ وہی مہینا ہے جس میں واقعۂ کربلا پیش آیا تھا،یزیدِ پلیداور ابنِ زیاد بدبخت کی فوجوں نےکربلا کےمیدان میں نواسَۂ رسول حضرت سَیِّدُنا امام عالی مقام امامِ حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ،آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے خاندان(Family) والوں اوردیگر حضرات پروہ ظلم کئے کہ تصوُّر کرکے ہی رُوح تڑپ جاتی اور بدن کے رونگٹےکھڑے ہوجاتے ہیں،اس کے جواب میں ان حضرات نےصبرو رضا کا جو عملی مظاہرہ کیا یقیناً وہ لائقِ تقلید ہے۔