Book Name:Rishtay Daron Kay Sath Acha Sulook Kejiye

کہ کسی موقع پرلَین دَین کے معاملات میں بھی یہی انداز اختیارکیا جاتاہےکہ جتنے پیسے فُلاں نے دیے،ہم بھی اُتنے ہی دیں گے، ایک دُوسرے کی خوشی اورغم میں شریک نہیں ہوتےکیونکہ چھوٹی چھوٹی  ناراضیوں کے سبب یہ ایک دُوسرے کے دُشمن بن چکے ہوتے ہیں۔اِسی طرح جو رِشتے دار اِس کے یہاں کسی تقریب میں شرکت نہیں کرتا تویہ اُس کے یہاں ہونے والی تقریب کا بائیکاٹ کردیتا ہے اوریُوں فاصِلے مزید بڑھائے جاتے ہیں۔حالانکہ کوئی ہمارے یہاں شریک نہ ہوا ہو تو اُس کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کے کئی پہلو نکل سکتے ہیں، وہ اپنی غیر حاضری کا سبب بتائے یا نہ بتائے،ہمیں اچھا گمان رکھ کر ثواب کمانا اور جنّت میں جانے کا سامان کرناچاہئے۔فرمانِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:حُسْنُ الظَّنِِّ مِن حُسْنِِِ الْعِبَادَۃِ یعنی اچھا گمان بہترین عبادت سے ہے۔(ابوداود،کتاب الادب،باب فی حسن الظن ،۴ /۳۸۸،حدیث: ۴۹۹۳)

حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہاِس حدیثِ پاک کے مُختلِف مطالِب بَیان  کرتے ہوئے لکھتے ہیں :یعنی مسلمانوں سے اچھا گمان کرنا ،اُن پر بدگمانی نہ کرنا ،یہ بھی اچھی عبادات میں سے ایک عبادت ہے ۔(مِرآۃُ المَناجِیح،۶/۶۲۱)

جنت کا مَحَل اُس کو ملے گا جو۔۔۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اگر ہمارے رشتے دار ہمارے ساتھ برا سلوک بھی کریں پھر بھی ہمیں بڑا حَوصَلہ رکھتے ہوئے تعلُّقات برقرار رکھنے چاہئیں۔حضرت سَیِّدُنا اُبَی بِن کَعب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے،نبیِّ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے:جسے یہ پسند ہوکہ اُس کے لیے(جنّت میں)مَحَل بنایا جائے اوراُس کے دَرَجات بُلند کیے جائیں،اُسے چاہیے کہ جو اُس پرظُلْم کرے،یہ اُسے