Book Name:Mahabbat-e-Madina
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پىارے پىارے اسلامى بھائىو! مدینے کی محبت سے متعلق ہم سُن رہےتھے، مدینے کے دیوانوں کے لیے ذکرِ مدینہ بھی ایک نعمت سے کم نہیں ہے، کیونکہ ذِکْرِ مدینہ دل و جان کو تسکین دیتا ہے، ذِکْرِ مدینہ روح کو قرار دیتا ہے، ذِکْرِ مدینہ ایمان کو حرارت دیتا ہے۔ ذِکْرِ مدینہ محبتِ رسول میں اضافہ کرتا ہے، ذِکْرِ مدینہ مدینے کی اُلفت کو مزید بڑھاتا ہے، ذِکْرِ مدینہ شوقِ دیدارِ طیبہ کو اُبھارتا ہے، ذِکْرِ مدینہ ایمان کو جِلا(یعنی نئی زندگی) بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا کی جِتنی زبانوں میں جس قدَر قصیدے مَدِیْنَۂ مُنَوَّرَہ کے ہِجر وفِراق (جُدائی)اور اِس کے دیدار کی تمنّا میں پڑھے گئے ہیں، اُتنے دنیا کے کسی اورشہر یا خِطّے (سرزمین) کے لئے نہیں پڑھے گئے،جسے ایک باربھی مدینے کا دِیدار ہوجاتاہے وہ اپنے آپ کو بَخت بیدار (خُوش قسمت) سمجھتا اورمدینے میں گُزرے ہوئے حَسین لمحات کو ہمیشہ کے لئے یاد گار قَرار دیتا ہے۔
وہ مدینہ جو کونین کا تاج ہے جس کا دِیدار مومن کی معراج ہے
زندگی میں خدا ہر مسلمان کو وہ مدینہ دکھادے تو کیا بات ہے
مدینے سے عشق کیسا ہونا چاہئے؟مدینے سے جدائی کے وَقْت ہمارے جذبات کیسے ہونے چاہئیں؟اِس کے لئے بزرگانِ دِین کی سیرت اور اُن کا کردار ہمارے لئے مثالی نمونہ ہے۔چنانچہ
میں چھوڑ کے آقا کا مدینہ نہیں جاتا
خلیفہ ہارونُ الرَّشید نے حضرت سَیِّدُناامام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے پوچھا: ’’کیا آپ کا کوئی گھر ہے؟“فرمایا:”نہیں۔“تو اُس نے آپ کی خدمت میں 3 ہزار(Three Thousand)دِینار پیش کرتے