Book Name:Duniya Ki Mohabbat Ki Muzammat

۷/۳۲۸) یعنی مرتے وقت وارثین(مَیِّت کےمال کے حق دار)تو چھوڑے ہوئے مال کی فکر میں ہوتے ہیں کہ کیا چھوڑ ے جا رہا ہے ؟اور جو فرشتے رُوْح قَبْض کرنے(یعنی نکالنے)کے لیے آتے ہیں وہ اعمال و عقائد کا حساب لگاتے ہیں۔ (مرآۃ المناجیح، ۷/۴۹)

اےعاشقانِ رسول!عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم دنیا اور اس کے سامان کی فکر چھوڑیں اور نیک اعمال کرنے میں مشغول ہو جائیں۔جس مال و دولت کو کمانے کے لیے ہم زندگی ختم کر بیٹھتے ہیں اس میں سے بھی صرف اتنا ہی ہمارا ہے جتنا ہم نے خرچ کر دیا۔ جو رہ گیا وہ ہمارا نہیں بلکہ حق داروں کا ہو گا۔یاد رکھئے!اس پیسے نے کسی سے وفا نہیں کی،یہ واقعی ہاتھوں کا میل ہے، بالفرض اگر زندگی میں کروڑوں اربوں روپے جمع کر بھی لیے جائیں تب بھی  ہم صرف اتنا ہی استعمال کر سکتے ہیں جتنا ہم کر سکیں۔یوں سمجھئے!جیسے کسی شخص کو خوب بھوک لگی ہو، سامنے بریانی کی دیگ پک رہی ہو، بریانی کی بھینی بھینی خوشبو دل و دماغ کواپنی طرف کھینچ رہی ہو، دل اس کی طرف مائل ہو، دل کر رہا کہ ساری کی ساری دیگ کھا لی جائے مگردو تین پلیٹیں کھانا کھانے کے بعد مزید کھانے کی گُنجائش نہیں رہتی۔بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ پیٹ بھر جاتا ہے مگردل نہیں بھرتا، دل کر رہا ہوتا ہے کہ اور کھائیں، بہت لذیذ بنا ہوا ہے مگر کھاتے نہیں ہیں ، اس لئے کہ مزید کھانے کی گنجائش ہی نہیں رہتی، پیٹ بھرگیا  ہے تو مزید کیسے کھایاجائے گا، بالکل اسی طرح ہم جتنا بھی کمالیں،کروڑوں اربوں  روپے جمع کرلیں مگر ان میں سے اتنا ہی کھائیں گے جتنے سے پیٹ بھرےگا۔اسی طرح کپڑا بھی اتنا ہی استعمال کیا جائے گا جتنے سے ایک سوٹ بن جاتا ہے، الغرض  دنیوی مال و دولت کے ڈھیربھی  جمع کر لئے جائیں تب بھی استعمال اتنا ہی کر پائیں گے جتنا ہم کر سکتے ہیں، باقی سب کا سب دُنیا میں رہ جائے گا۔ جیسا کہ

 حدیثِ پاک میں ہے،نبیِ کریم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: بندہ میرا مال میرا مال کہتا رہتا