Book Name:Sadqy Kay Fwaeed

پىارے پىارے اسلامى بھائىو!ہمارے بُزرگانِ دِین میں صَدَقہ و خَیْرات کا جذبہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا۔جس طرح دنیا کی دولت کے حریص کو دنیا کمانےاور مال و دولت پانے کی خواہش ہوتی ہے، اس سے کہیں زیادہ اللہ  والوں کو یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ اپنا مال راہِ خدا میں قربان کر دیا کریں۔ آئیے! ترغیب کے لیے کچھ روایات سنتے ہیں:

ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کی سخاوت

حضرت سیِّدُنااَیُّوب بن وَائِل رَاسِبِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ میں مدینۂ منوّرہ حاضر ہوا تو مجھے حضرت سیِّدُنا عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا کے ایک پڑوسی (Neighbour)نے بتایاکہ حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کے پاس حضرت سیِّدُنا امیرِ مُعَاوِیَہ رَضِیَ اللہ عَنْہکی طرف سےچار ہزار درہم آئے ہیں اور ایک دوسرے آدمی کی طرف سے بھی اتنے ہی درہم آئے ہیں اور ایک شخص نے 2 ہزاردرہم اور ایک عمدہ چادر حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کی خدمت میں بھیجی ہے۔ حضرت ایوب بن وائل رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کہتےہیں: میں نے دیکھا کہ  حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہ عَنْہُمَا بازار میں تشریف لائے اور کھوٹے دِرہم  (یہاں کھوٹے درہم سے جعلی کرنسی مراد نہیں بلکہ وہ درہم مراد ہیں جو مالیت میں عام درہم سے کم ہوں )کے بدلے میں اپنی سواری کے لئے چارا خریدا۔ میں نے انہیں پہچان لیاپھر میں نے ان کی اَہلیہ کے پاس آکر کہا کہ’’میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ آپ مجھ سے سچ بیان کریں۔‘‘ میں نے پوچھا : ’’کیا ابوعبدالرحمٰن رَضِیَ اللہ عَنْہکے پاس حضرت سیِّدُنا امیرِمُعَاوِیَہ رَضِیَ اللہ عَنْہ کی طرف سے 4 ہزار درہم،ایک دوسرے آدمی کی طرف سے 4 ہزار درہم اور ایک شخص کے پاس سے 2 ہزاردرہم اورایک چادرنہیں آئی تھی؟‘‘ جواب ملا:’’ کیوں نہیں!یقیناً یہ