Book Name:Ghos-e-Pak Ka Khandan

جاہل!اے نادان!اے نا سمجھ!کیاتُواللہ پاک سے نہیں ڈرتا“یااسی طرح کے دیگر الفاظ اِسْتعمال کرنا۔ (4)(عہدہ و منصب کے)غَلَبےکے ذَریعے عملاً روکنا مثلاً آلاتِ لَہْو و لَعِب توڑ دینا، شراب کو بہادینا،ریشمی لباس کو پھاڑ دینااور زبردستی کسی کا حق چھیننے والےسے چھینےہوئے کپڑے چھین کر مالک کو لوٹا دینا۔(یہ آخری دَرَجہ اہلِ اِقْتِدارو حکومت کیلئے ہے )(احیاءالعلوم،۲/۱۱۲۴ملخصاً)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!نیکی کی دعوت کے بیان کردہ  مَراتِب پر ہر ایک کو عمل کرنا ضروری نہیں بلکہ اس کی چند صورتیں ہیں۔چُنانچہ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارےمکتبۃُ المدینہ کی کتاب”بہارِ شریعت“جلد3صفحہ نمبر615 پر ہے:اَمْر ٌبِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر(یعنی نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے روکنے)کی کئی صُورتیں ہیں: (1)اگر غالب گمان یہ ہے کہ یہ(نیکی کی عوت دینےوالا)ان سے کہےگاتووہ اس کی بات مان لیں گے اور بُری بات سے باز آجائیں گے،تو اَمْر ٌبِالْمَعْرُوْف(نیکی کی عوت دینا) واجب ہے،اس(نیکی کی دعوت دینے والے شخص)کو باز رہنا جائز نہیں،خصوصاً  سیٹھ، والدین، بڑے بھائی بہن، دِینی منصب والوں مثلاً پیر و مُرشِد،امام صاحب، اساتذہ وغیرہ کو اس صورت میں اپنے ماتحتوں اور چھوٹوں کے بارے میں غور کرنا لازم ہے۔ (2)اگر گمانِ غالب یہ ہے کہ وہ ( جن کو نیکی کی دعوت دے گا تو وہ )طرح طرح کی تُہمت باندھیں گے اور گالیاں دیں گے تو(پھر نیکی کی دعوت ) تَرک کرنا(یعنی چھوڑدینا)اَفْضل ہے،(3)اگر یہ مَعْلُوم ہے کہ وہ اسے ماریں گے اور یہ صَبْر نہ کرسکے گا یا اس کی وَجہ سے فِتْنہ و فَساد پیدا ہوگا، آپس میں لڑائی ٹَھن جائے گی، جب بھی چھوڑنا اَفْضل ہے، (4)اگرمعلوم ہو کہ وہ (لوگ جنہیں  نیکی کی دعوت دی جاۓ گی)اگر اسے ماریں گے تو صَبْر کرلے گا،تو ان لوگوں کو بُرے کام سے مَنْع کرے اور یہ (نیکی کی دعوت دینے والا )شخص راہِ خدا میں لڑنے والا ہے ،(5) اگر معلوم ہے کہ وہ مانیں گے نہیں مگر نہ ماریں گے اورنہ گالیاں دیں گے، تو اِسے اِخْتیار ہے اور اَفْضَل یہ ہے کہ اَمْر