Book Name:Ita'at-e-Mustafa

وَسَلَّمَمیں شادی نہیں کرناچاہتا،کیو نکہ ایک تو میرے پاس اتنا مال و اَسباب نہیں کہ ایک عورت کی ضروریات پُوری کرسکوں اور دوسرایہ کہ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ کوئی چیز مجھے آپ سے دُور کردے، نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھ سے اِعْراض فرمایا،لیکن پھر میں نے سوچا کہ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ مجھ سے زِیادہ جانتے ہیں کہ دُنیا  وآخرت میں میرے لیےکیا چیز بہتر ہے، اگراب  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تو کہہ دوں گا ٹھیک ہے، یَارَسُوْلَاللہ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ)!آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں۔چُنانچہ جب تیسری بار آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرْشاد فرمایا:ربیعہ! شادی کیوں نہیں کرلیتے ؟تومیں نے عرض کی: کیوں نہیں ،پھر نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اَنْصار کے ایک قبیلے کا نام لے کر فرمایا،ان کے پاس چلے جاؤ اور ان سے کہنا !مجھے رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھیجا ہے  کہ فُلاں عورت سے میری شادی کردیں۔چُنانچہ میں ان کے پاس گیا اورسرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پیغام سُنایا تو ان لوگوں نے بڑے پُر تَباک(عالیشان) طریقے سے میر ااِسْتقبال کیا اور کہنے لگے، نبیِّ کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قاصد(پیغام لانے والا)اپنا  کام کیے بغیر نہیں لوٹنا چاہیے۔پھر اُنہوں نے اس عورت سے میرا نکاح کردیا اور خُوب شفقت ومہربانی سے پیش آئے اور کوئی دلیل بھی طلب نہیں کی۔(المسند لامام احمد بن حنبل، حدیث ربیعۃ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ، حدیث:۱۶۵۷۷، ج۵، ص۵۶۹)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! آپ نے سنا کہصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں اِطاعتِ رسُول کا کیسا جَذبہ ہوا کرتا تھا کہ شادی جیسے نازُک مُعاملے میں بھی کوئی دلیل طلب کیے بغیر صرف  رَسُوْلُ اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پیغام کو سُنتے ہی اپنی لڑکی کی شادی،حضرتِ ربیعہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے کردی۔اس واقعے سے یہ مدنی پھول ملاکہ ہم جس سےاپنے بچوں کی  شادی  کریں،اگر چہ غریب ہو،لیکن نماز ،روزہ ، سُنَّتوں