Book Name:Aala Hazrat Ka Tasawwuf

غوثِ اعظم کی آنکھ کا تارا                                              واہ کیا بات اعلیٰ حضرت کی

(وسائل بخشش مرمم،ص۵۷۵)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  !پیکرِسنّت،اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہمیٹھی فیرینی سےقبل اور بعد اس لئے نمکین چَٹنی استِعمال فرما تے تھے کہ کھانے کے اوّل آخِر نمک استِعمال کرنے کی سُنّت ادا ہو جائے۔ کھانے کے اوَّل آخِر نمک(یا نَمَکین)کھانے سےاَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّ  وَجَلَّ!ستر(70)بیماریاں دُورہوتی ہیں۔ (فیضانِ سنّت ،ص۶۵۹)اللہپاک کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ہم گناہگاروں کو دامنِ رضا سے وابستہ ہونے اور اعلیٰ حضرت کے صدقے میں دامنِ مُصْطَفٰے عطا فرمایا مگر ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم  پیارے پیارے آقا، مکی مدنی مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سنتوں سے منہ موڑے بیٹھی ہیں،ایک دور تھا کہ جب کھڑے ہوکر کھانا یا کھلانا بہت ہی بُرا سمجھا جاتا تھا مگر اب  ایسا کرناگویا ایک فیشن(Fashion) بنتا جارہا ہے،ایک دور تھا کہ جب اُلٹے ہاتھ سے کھانے پینے کو  عیب شمارکیاجاتا تھا اور فوراًاِصلاح کی جا تی تھی جبکہ آج الٹے ہاتھ سے کھانا کھانےکو”بچپن کی عادت“کہہ کر ٹال دیا جاتااور اِصلاح کرنے والوں پر طعن و تشنیع کے تیر برسائے جاتے ہیں،ایک دور تھا  کہ جب ایک ایک لقمے کی قدر کی جاتی اور برتن کو صاف کرکے کھانے کو ضائع ہونے سےبچایا جاتا تھا مگر اب بہت ساکھانا جان بوجھ کر ضائع کردیاجاتا ہے،ایک دورتھا کہ جب مسلمان کا بچہ بچہ سنتوں کا شیدائی ہوا کرتاتھامگراب سُنّتوں پر عمل کا جذبہ ختم ہوتا جارہا ہے،ایک دورتھا کہ جب ناجائزفیشن کرنےکو ہر کوئی بُرا سمجھتا تھا مگر اب اس کو باعثِ فخر سمجھاجاتا ہے،ایک دورتھا کہ جب سُنتیں اپنانے والوں کو ہر جگہ عزت دی جاتی تھی مگر اب پابندِسنت اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کو طرح طرح سےستایا  جاتا،جی بھر کران کا مذاق اڑایا جاتا ،ان کا دل دکھایا جاتااور انہیں عجیب و غریب القابات سے نوازا