Book Name:Aala Hazrat Ka Tasawwuf

ِ تَعَالٰی عَلَیْہ شریعت اورطریقت کےباہمی تعلق کو یوں بیان فرماتے ہیں:شریعَت مَنْبَع ہے اورطریقت اس میں سے نکلا ہواایک دریاہے۔عُموماً کسی مَنْبَع یعنی پانی نکلنےکی جگہ سےاگردریابہتاہوتواسے زمینوں کو سیراب کرنے میں مَنْبَع کی حاجت نہیں ہوتی لیکن شریعَت وہ مَنْبَع ہے کہ اس سے نکلے ہوئے دریا یعنی طریقت کو ہر آن اس کی حاجت ہے کہ اگر شریعَت کے مَنْبَع سے طریقت کے دریا کا تَعلُّق ٹوٹ جائے،تو صرف یہی نہیں کہ آئندہ کے لیے اس میں پانی نہیں آئےگا بلکہ یہ تَعلُّق ٹوٹتے ہی دریائے طریقت فوراً فنا ہوجائے گا۔(فتاویٰ رضویہ ،۲۱/۵۲۵، ملخّصاً)(مدنی مذاکرہ قسط:10:ولی اللہ کی پہچان، ص۲۱)

ظاہری اور باطنی شریعت کی حقیقت

صَدْرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ حضرت علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:طریقت منافیِ شریعت(یعنی شریعت کے خلاف)نہیں وہ شریعت ہی کاباطنی حصہ ہے،بعض جاہل متصوِّف جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ طریقت اور ہے شریعت اور،محض گمراہی ہے اور اس زُعمِ باطل(غَلَط خیال) کے باعث اپنے آپ کو شریعت سے آزاد سمجھنا صریح کُفر و اِلْحاد(کفر وبے دینی ہے)۔ احکامِ شرعیہ کی پابندی سے کوئی ولی کیسا ہی عظیم ہو سُبکدوش نہیں ہو سکتا۔ بعض جُہّال جو یہ بک دیتے ہیں کہ شریعت راستہ ہے،راستہ کی حاجت ان کو جو مقصود تک نہ پہنچے ہوں، ہم تو پہنچ گئے۔سیِّدُ الطائفہ حضرت جُنید بغدادی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہنے انہیں فرمایا:صَدَقُوْا لَقَدْ وَصَلُوْا، وَلٰکِنْ اِلٰی اَیْنَ؟اِلَی النَّارِوہ سچ کہتے ہیں بیشک پہنچے،مگرکہاں؟جہنم کو۔(الیواقیت والجواہر،الفصل الرابع،المبحث السادس والعشرون،باختلاف بعض الالفاظ،ص۲۰۶)البتہ اگر مَجْذوبیت سےعقلِ تکلیفی زائِل ہو گئی ہو جیسےغشی والا تو اس سے قلمِ شریعت اُٹھ جائے گا مگر یہ بھی سمجھ لو جو اس قسم کا ہو گا اس کی ایسی باتیں کبھی نہ ہوں گی، شریعت کا مقابلہ کبھی  نہ