Book Name:Aala Hazrat Ka Tasawwuf

اوسط،۶/۱۴۶،حدیث:۸۳۱۲)جب1339ہجری کا ماہِ رَمَضان مئی،جون1921میں پڑا اورمسلسل عَلالت اورشدید کمزوری کے باعِث اعلیٰ حضرت(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ)نے اپنے اندر موسمِ گرما میں روزہ رکھنے کی طاقت نہ پائی تو اپنے حق میں یہ فتویٰ دیا کہ پہاڑ پر سردی ہوتی ہے وہاں روزہ رکھنا ممکن ہے لہٰذا روزہ رکھنے کے لیے وہاں جانا استِطاعت کی وجہ سے فَرْض ہوگیا۔پھر آپ روزہ رکھنے کے ارادے سے کوہِ بھوالی ضلع نینی تال تشریف لے گئے ۔(تجلیاتِ امام احمد رضا، ص۱۳۳ملخصاً) اور ایسا بھی نہ تھا کہ روزوں میں پیٹ بھر کر کھانا کھانا آپ کےمعمولات میں ہو،عام ایام میں جتنی غذا آپ کھاتے رمضان میں وہ اور کم ہوجاتی تھی،چنانچہ

روزہ  میں ایک وقت کھانا

 خلیفۂ اعلیٰ حضرت،حضرت مَوْلانا محمدحُسین مِیرٹھیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کا بَیان  ہے کہ میں نے رَمَضانُ المبارَک کی20تاریخ سے اِعتِکاف کِیا۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ مسجِد میں تشریف لائے تو فرمایا:”جی تو چاہتا ہے کہ میں بھی اعتِکاف کروں،مگر(دینی مشاغِل کےباعِث)فُرصت نہیں ملتی۔آخِر 26 رَمَضانُ المُبارَک کوفرمایا:”آج سےمیں بھی مُعْتَکِف ہی ہوجاؤں۔“حضرت مَوْلانامحمدحُسین مِیرٹھی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:”شام(Evening) کو کھجور وغیرہ سےروزہ تو اِفطار فر ما لیتے مگر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کوکھانا کھاتے میں نے کسی دن نہیں دیکھا ۔ سَحَری کے وَقْت صِرف ایک چھوٹے سے پیالے میں فیرینی اور ایک پیالی میں چٹنی آیا کرتی تھی، وہ نوش فرمایا کرتے ۔“ایک دن میں نے دریافْت کیا:”حضُور ! فیرینی اور چٹنی کا کیا جوڑ ؟“فرمایا:”نمک سے کھاناشروع کرنااورنمک ہی پرخَتْم کرناسُنّت ہے،اِس لیے چٹنی آتی ہے۔(فیضانِ اعلیٰ حضرت،ص۱۱۳ ملتقطا ًً)

مُصْطَفٰے کا وہ لاڈلا پیارا                                                     واہ کیا بات اعلیٰ حضرت کی