Book Name:Islam Mukammal Zabita-e-Hayat Hai

بصرہ پہنچے اُسی دن اسے بیچ دینا اور اگلے دن تک مُؤَخَّر نہ کرنا۔ اتفاقاً وہاں بھاؤ(Rate)کم تھا تو تاجروں نے ان کے وکیل کو مشورہ دیاکہ اگر آپ  اسے جمعہ کے دن تک مُؤخَّرکر یں تو اس میں دُ گنا فائدہ ہوگا۔ چنانچہ اس  نے جمعہ تک کے لئے فروخت کرنا مُؤَخَّر کردیا تو اس میں کئی گُنا فائدہ ہوا۔ وکیل نے یہ واقعہ مالک کو لکھ کر بھیجا تو انہوں نےوکیل کو خط لکھا:اے فلاں!ہم اپنے دین کی سلامتی کے ساتھ تھوڑے فائدے پر ہی قناعت کر لیا کرتے ہیں مگرتم نے اس کے خِلاف کِیا۔  ہمیں یہ پسند نہیں کہ ہمیں اس سے کئی گُنا فائدہ ہو لیکن اس کے بدلے ہمارے دین میں سے کوئی چیز چلی جائے(یعنی ہمیں دینی و اُخروی  نُقصان پہنچے)لہٰذا جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو وہ تمام مال لے کر بصرہ کے فقرا پر صدقہ کر دینا۔ شاید  ایسا کرنے سے میں ذخیرہ اندوزی کے گُناہ سے نَجات پا سکوں کہ نہ تو مجھے(اُخروی)نقصان ہو اور نہ ہی (دُنیوی) فائدہ۔ ( احیاء  العلوم  الدین،  ۲/۹۳)

میں سب دولت رہِ حق میں لُٹا دوں        شہا ایسا مجھے جذبہ عطا ہو

(وسائل بخشش مرمم،  ص۳۱۶)

سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ !سنا آپ نے!ہمارے بزرگوں کا اندازِ تجارت اور طرزِ معیشت کس قدر نرالہ تھا۔ بِلا شبہ اسلامی تاریخ کے صفحات ایسے باکردار لوگوں کے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں جو نہ صرف اپنے ذاتی مُعاملات بلکہ تجارتی مصروفیات میں بھی ایثار و بھلائی اور مسلمانوں کی خیر خواہی کو اپناتے ہوئے اسلام کے مَعاشی اصولوں پر کاربند رہے،  شاید اسی وجہ سے ان کے دور کی مَعاشی خوشحالی اپنی مثال آپ تھی،  بہرحال اگرتاجر حضرات لالچ کے پھندے سے نکل کر شریعت کے مقرر کردہ اُصول و قوانین کا پٹا اپنے گلے میں ڈال لیں اور کسب وتجارت کے مُعاملے میں اللہ والوں کی پیروی کریں تو مُعاشرے میں ایک شاندار خوشحالی لائی جاسکتی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ مدنی چینل پر”احکامِ تجارت“کے نام سے ایک معلوماتی سلسلہ بھی  نشر کیا جاتا  ہے۔