Book Name:Farooq-e-Azam ka Ishq-e-Rasool

واَحْباب  سے بھی مَحَبَّت کرتاہے ۔چُنانچہ

حسنینِ کریمین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کو اپنی اَوْلاد پر ترجیح دی:

حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب خِلافتِ فارُوقی میں اللہ پاک نےصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے ہاتھ پر(کسریٰ کے دارالحکومت) مَدائن فَتْح کیا اور مالِ غنیمت مدینۂ مُنوَّرہ میں آیا تو اَمِیْرُ الْمُؤمنین حضرت سَیِّدُنا عُمر فارُوقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مسجدِنَبَوِی میں چَٹائیاں بچھوائیں اور سارا مالِ غنیمت ان پر ڈھیر کروادیا۔ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان مال لینے جَمْع ہوگئے ۔سب سے پہلے حضرت سَیِّدُنا امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’اے اَمِیْرُ الْمُومنین !اللہ  پاک نے جو مُسلمانوں کو مال عطافرمایا ہے، اس میں سے میرا حِصّہ مجھے عَطا فرمادیں۔‘‘آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: آپ کے لیے بڑی مقبولیت اور عزّت ہے۔‘‘ساتھ ہی آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک ہزار(1000) دِرْہم انہیں دے دئیے۔ اُنہوں نے اپنا حِصّہ لیا اور چلے گئے،  ان کے بعد حضرت سَیِّدُنا امام حُسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کھڑے ہو کر اپنا حِصّہ مانگا، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا: آپ کے لیے بڑی مقبولیت اورعزّت ہے۔‘‘ساتھ ہی آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک ہزار(1000)دِرْہم انہیں بھی دے دیے، اس کے بعد آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکے بیٹے حضرت سَیِّدُنا عبدُاللہبن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اُٹھے اوراپنا حصہ مانگا ۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنےفرمایا:’’ آپ کے لیے بھی بڑی مقبولیت اور عزّت ہے۔‘‘ اورساتھ ہی انہیں پانچ سو (500) دِرْہم عطا فرمائے، اُنہوں نے عرض کیا:’’اے اَمِیْرُ الْمُومنین! میں اس وَقْت بھی حُضُور نبیِّ پاک، صاحبِ لولاکصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تلوار اُٹھا کر اللہ پاک کی راہ میں لڑا تھا جب سَیِّدُنا حسن و حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کم عُمر مَدَنی مُنّے تھے۔ اس کے باوُجُود آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے انہیں ایک ایک ہزار دِرْہم اور مجھے پانچ سوعطا کیے؟‘‘ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کایہ سُننا تھا کہ اَہْلِ بیت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین کی مَحَبَّت کا سَمُنْدر مَوجیں مارنے لگا اور عِشْق ومَحَبَّت سے سرشار ہوکر ارشاد فرمایا: جی ہاں بالکل! (اگر تم چاہتے ہوکہ میں تمہیں بھی ان کے برابرحصّہ دوں تو)جاؤ پہلے تم حسنینِ کریمینرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے باپ جیسا باپ ، ان کی والدہ جیسی والدہ ،  ان کے نانا جیسانانا،  ان کی نانی جیسی نانی ،  ان کے چچا جیسا چچااوران کے ماموں جیسا ماموں لاؤ اور تم کبھی بھی نہیں لاسکتے۔کیونکہ’’اَبُوْهُمَا فَعَلِيُّ الْمُرْتَضٰى ان کے والد عَلِیُّ الْمُرْتَضٰی شیرِخُدارَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں۔‘‘’’اُمُّهُمَا فَفَاطِمَةُ الزَّهْرَاءان کی والدہ سَیِّدہ فَاطِمَۃُ الزَّہْرارَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاہیں۔‘‘’’جَدُّهُمَا مُحَمَّدُنِ الْمُصْطَفٰی ان کے نانا محمدِ مصطفےٰصَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں، جَدَّتُهُمَا خَدِيْجَةُ الْكُبْرٰى ان کی نانی سَیِّدہخَدِیْجَۃُ الْکُبْریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاہیں۔ عَمُّهُمَا جَعْفَرُ بْنُ اَبِيْ طَالِبٍ ان کے چچا حضرت جَعْفَربن اَبی طالب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں۔خَالُهُمَا اِبْرَاهِيْمُ بْنُ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ان کے مامُوں رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم