Book Name:Farooq-e-Azam ka Ishq-e-Rasool

میں نے شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن، اَنِیْسُ الْغَرِیْبِیْنصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایسے ہی کاٹتے دیکھا تھا۔اس لیے میں نے بھی چُھری سے آستینیں کاٹ دیں۔‘‘اَمِیْرُ الْمُؤمنین حضرت سیِّدُنا عُمر فارُوقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے آستین کاٹنے کے بعد کُرتے کی حالت یہ تھی کہ اس سے بعض دھاگے باہر نکل نکل کر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قَدموں کے بوسے لیتے رہتے تھے۔ (مستدرک حاکم،  کتاب اللباس،  کان نبی اللہ۔۔۔الخ،  ج۵،  ص۲۷۵،  حدیث:۷۴۹۸۔)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!ذراغورکیجئے!حضرت سَیِّدُناعُمر فارُوقِ اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ذاتِ مُبارَکہ میں پیارے آقا، مدینے والے مُصْطفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سےعشقِ رسول اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سُنَّتوں  پرعمل کاجذبہ کس قدرکُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھاکہ آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِتّباع میں آپ نے بھی چُھری ہی سے آستین کاٹ لی لیکن وہ صحیح نہ کَٹی، پھر بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسی حالت میں اس قمیص کو پہننے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی، یہ کمال دَرَجے کا اِتّباعِ سُنَّتِ مُصطفےٰ تھا۔اسی طرح دیگر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کے  سُنَّتوں سے  مَحَبَّت اوراس پر عمل کا یہ عالَم تھا کہ دُنیا کی کوئی کشش اور بے وَفا مُعاشرے کی کوئی جُھوٹی ’’مُرَوَّت ‘‘ ان سے سُنَّت نہ چُھڑا سکتی تھی۔چُنانچہ

حضرت سَیِّدُنا حَسَن بَصری  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضرت سَیِّدُنا مَعْقِل بن یَساررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  (جوکہ وہاں مُسلمانوں کے سردار تھے ایک مرتبہ )کھانا کھا رہے تھے کہ ان کے ہاتھ سے لُقْمَہ گِرگیا، اُنہوں نے اُٹھالیا اورصاف کرکے کھالیا۔یہ دیکھ کر گنواروں نے آنکھوں سے ایک دوسرے کو اِشارہ کیا( کہ کتنی عجیب بات ہے کہ گِرے ہوئے لُقْمَہ کواُنہوں نےکھالیا)کسی نےآپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے کہا، اللہ پاک اَمِیْرکا بھلا کرے، اے ہمارےسردار!یہ گنوار تِرچھی نگاہوں سےاِشارہ کرتے ہیں کہ اَمِیْرصاحبرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نےگِراہوا لُقْمَہکھالیا حالانکہ ان کے سامنے یہ کھانا مَوْجُود  ہے۔

اُنہوں نے فرمایا:ان عجمیوں کی وجہ سے میں اس چیز کونہیں چھوڑ سکتا، جسے میں نے سرکارِ مدینہ،  راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَسے سُنا ہے۔ہم ایک دوسرے کو حکم دیتے تھے کہ لُقْمَہ گِر جائے تو اسے صاف کرکے کھالیا جائے شیطان کیلئے نہ چھوڑا جائے۔(ابن ماجہ شریف ج٤ص١٧حدیث ٣٢٧٨ )

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ نے سنا؟جَلِیْلُ الْقَدْرصحابی اور مُسلمانوں کے سردار سَیِّدُنا مَعْقِل بن یَساررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سُنَّتوں سےکس قَدَرپیارکرتے تھے۔آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عجمیوں کے اِشاروں کی ذَرّہ برابر پروا  نہ کی اور بے دَھڑک سُنَّتوں پرعمل جاری رکھا۔آج بعض نادان مُسلمان ایسے بھی ہیں کہ’’ماڈرن ماحول‘‘میں داڑھی مُبارَک جیسی عظیمُ الشَّان سُنَّت کے چھوڑنے کو مَعَاذَ اللہ’’حکمتِ عملی ‘‘تَصَوُّر کرتے ہیں۔حقیقی حکمتِ عملی یہی ہے کہ لاکھ برا ماحول ہو ، اَغْیار کا زور ہو، بے دِینوں کا شور ہو، الغرض کیسا ہی دَور ہو،