Book Name:Aashiqoon Ka Hajj

ہے۔ ان کے اَنداز سے تو  یُوں لگتا ہے جیسے مَعَاذَ اللہ  وہاں بھی پکنک مَنانے آئے ہیں۔ وہی  ہلہ گلہ، وہی شور و غل اور نہ تھمنے والا ہنسی مَذاق جاری ہوتا ہے۔ہونا تو یُوں چاہیے کہ جس  خُوش نصیب کو یہ موقع مُیَسَّر آۓ تو اُسےاپنی سَعادتوں کی مِعْراج جان کر اس کے مَقْصَد کو سمجھتے ہوۓ اس کی حد دَرَجہ تعظیم کرے۔

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! ہمیں بھی چاہیے کہ جب اس مُبارَک سفرپہ جانے کی سَعادَت نصیب ہو تو اس کی تعظیم بَجالاتے ہوئے، اس بات کا خاص خیال رکھا جائے   کہ کوئی ایسی بات نہ  ہو کہ جس کے سبب سارا سفر ہی بیکار ہو جاۓ۔بعض نادان لوگ ان مُقدَّس مَقامات  پر بھی  مَذاق مَسْخری سے باز نہیں آتے اوردُنیا جہان کی باتوں میں مشغول رہ کران کا تَقَدُّس  پامال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔بعض لوگ وہاں پر بھی موبائل فون کابِلاضرورت اِستعمال کرتے ہیں،بعض نادان ان مقدس مقامات پراپنی تصاویرخودہی بناکراپنا قیمتی وقت بھی ضائع کرتے ہیں اوردُوسروں کے لیےتشویش کا باعث بھی بنتے ہیں۔ نہ جانےایسے لوگوں کی  ان حرکتوں سے کتنوں کے حج و عُمرہ خراب ہوتے ہوں گےاور اُن کے ذَوق وشَوق میں خلل پیدا ہوتا ہوگا۔

اگرہم اَولیائے کاملین اوربُزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کےسفرِحرمین کے واقعات کا مُطالَعہ کریں تو ہمیں  پتہ چلے گا کہ یہ حضرات   اِنْتہائی اَدب  وتعظیم کے ساتھ سَفرِ حج پر روانہ ہوتے، اللہ  کریم سے  رو رو کر مُناجات کرتے ، اپنے گُناہوں کی معافی مانگتے، عاجزی و اِنکساری اپناتے اور  خوفِ خدا اور عشقِ  رسول  سے سرشار ہو کر کچھ اس طرح سفرِ مدینہ کےلیے روانہ ہوتے کہ ان کی صُحبت کی بَرَکت سے دوسرے لوگ  بھی ان کے رَنگ میں رَنگ جایاکرتے تھے۔آئیے!ایک نہایت اِیْمان اَفروز حکایت سنتی ہیں۔ چُنانچہ،

حضرتِ سیِّدُ نا مُخَوَّل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:حضرت سَیِّدُنا بُہَیْم عِجلیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے