Book Name:Aashiqoon Ka Hajj

مجھ سے فرمایا : میرا حج کا اِرادَ ہ ہے کسی کو میرا رفیقِ سفر بنادیجئے۔ چُنانچِہ میں نے اپنے ایک پڑوسی کو اُن کے ساتھ سَفرِ مدینہ پرآمادہ کرلیا۔ دوسرے دن میرا پڑوسی میرے پاس آیا اور کہنے لگا:میں حضرتِ سیِّدُنا بُہَیْمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ساتھ نہیں جاسکتا۔ میں نے حیرت سے کہا :خُدا کی قسم ! میں نے کُوفہ بھر میں ان جیسا بااَخلاق آدَمی نہیں دیکھا،آخِر کیا وَجہ ہے کہ تم ان کی رَفاقت سے خُود کو مَحروم کررہے ہو؟وہ بولا:میں نے سُنا ہے کہ وہ اکثر روتے رہتے ہیں، اِس لیے ان کے ساتھ میرا  سفر  خُوشگوار نہیں رہے گا۔ میں نے اُس کو سمجھایا کہ یہ بَہُت اچھّے بُزُرگ ہیں، ان کی صُحبت اِنْ شَآءَ اللہتمہارے لیے نہایت نفع بَخْش ہوگی، وہ مان گیا۔ جب سفر کے لیے اُونٹوں پر سامان لادا جانے لگا تو حضرتِ سیِدُنابُہَیْم عِجلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی ایک دیوار کے قریب بیٹھ کر رونے میں مشغول ہوگئے ، حتّٰی کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی داڑھی مبارَک اور سینہ اَشکوں سے تَر ہوگیا اور آنسو زمین پر ٹَپ ٹَپ گِرنے لگے۔ میرے پڑوسی نے گھبرا کر مجھ سے کہا : ابھی تو سفر کی شُروعات ہیں اور ان کا یہ حال ہے ،خُدا جانے آگے کیا عالَم ہوگا! میں نے اِنْفِرادی کوشِش کرتے ہوئے کہا : گھبرائیے نہیں سفر کا مُعامَلہ ہے، ہوسکتا ہے بال بچّوں کی جُدائی میں رو رہے ہوں اور آگے چل کر قَرار آجائے۔

حضرت سیِّدُنابُہَیْم عِجلیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے یہ بات سُن لی اور فرمایا : وَاللّٰہ! ایسی بات نہیں ،اِس سفر کے سبب مجھے’’سَفرِ آخِرت‘‘یادآگیا۔یہ فرماتے ہی چیخیں مار مار کر رونے لگے۔ پڑوسی نے پھر پریشانی کے عالَم میں مجھ سے کہا : میں ان کے ہمراہ کیسے رہ سکوں گا! ہاں ان کا سفر حضرت سَیِّدُنا داوٗد طائی اور سیِّدُنا سلام اَبُو اْلاَحْوَص رَحِمَہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ یہ دو حضْرات بھی بَہُت روتے ہیں، اُن کے ساتھ ان کی ترکیب خُوب رہے گی اور مل کر خُوب رویا کریں گے۔ میں نے پھر پڑوسی کی ہمّت بندھائی، آخرِ