Book Name:Faizan-e-Imam Azam

ہرگز بخیل نہیں ۔(پ۳۰،التکویر:۲۴)

  اِس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیرِخازن میں ہے: ''مراد یہ ہے کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پاس علمِ غَیْب آتا ہے تو تم پر اس میں بُخل(کنجوسی) نہیں فرماتے، بلکہ تمہیں بتاتے ہیں۔''  (تفیسر خازن ج۴ ،ص۳۵۷)  اِس آیت و تفسیرسے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے محبوب، دا نائے غُیُوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَلوگوں کو علمِ غیب بتاتے ہیں اور ظاہر ہے بتائے گا وُہی جو خُود بھی جانتا ہو۔

سرکار کی نظر میں امامِ اعظم کا عِلْمی مقام!

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک غیب کی خبر دیتے ہوئے  یہ ارشاد فرمایا :لَوْ كَانَ الْعِلْمُ بِالثُّرَیَّا لَتَنَاوَلَہٗ اُنَاسٌ مِّنْ  اَبْنَاءِ فَارس ۔یعنی علم اگر ثُریّا پر مُعلَّق ہوتا تو اَوْلادِ فارس سے کچھ لوگ اسے وہاں سے بھی لے آتے ۔(مسند احمد،ج۳ ص:۱۵۴،حدیث:۷۹۵۵)

حَضْرتِ سَیِّدُناامام ابنِ حجر مکی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ  الْقَوِیاِرْشاد فرماتےہیں :اس حدیثِ پاک  سے امامِ اعظم ابُوحنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  (کی ذات ِ بابرکت )مراد ہے۔ اس میں اَصلاً شک نہیں ہے،کیونکہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے زَمانے میں اَہلِ فارس میں سے کوئی شَخْص علم میں اُن کے رُتبے کو نہ پہنچا، بلکہ ان کے شاگردوں کے (علمی )مرتبے تک بھی رَسائی نہ ہوئی اوراس میں سرورِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کُھلا مُعْجِزَہ (بھی )ہے کہ آپ صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غیب کی خبر دی ،جو ہونے والاہے بتادیا ۔ (الخیرات الحسان، ص۲۴)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! یہ بات  اَظْہَرُ مِنَ الشَّمْسِ وَ اَبْیَنُ مِنَ الْاَمْس (یعنی سُورج سے زیادہ روشن اور روزِگزَشتہ سے زیادہ قابِلِ یقین)ہوگئی  کہ ہمارے پیارے پیارے آقا،مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عَطا ئے الٰہی سے علمِ غیب حاصل  ہے، جبھی تو آپ صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حَضْرتِ سَیِّدُنا