Book Name:Maan ke Dua ka Asar

  اُن کا حکم ماننے سے منع فرمایا ہےکیونکہ ربِّ کریم کی نافرمانی میں مخلوق کی فرمانبرداری کرنا جائز نہیں،چنانچہ

اگر ماں باپ آپس میں لڑیں تو اولاد کیا کرے؟

اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : اگر ماں باپ میں باہَم تَنازُع (یعنی لڑائی)ہوتو نہ ماں کا ساتھ دے نہ باپ کا،ہرگز ایسا نہ ہوکہ ماں کی مَحبَّت میں باپ پر سختی کرے ۔ باپ کی دل آزاری یا اُس کو سامنے جواب دینا یا بے ادبانہ آنکھ ملاکر بات کرنا یہ سب باتیں حرام ہیں اور اللہ کریم کی نافرمانی  ہے۔اَولاد کو ماں باپ میں سے کسی کا ایسا ساتھ دینا ہرگز جائز نہیں،وہ دونوں اُس کی جنّت اور دوزخ ہیں،جسے اِیذا(تکلیف)دے گا جہنّم کا حقدار ٹھہرے گا۔وَالْعِیاذُبِاللّٰہ۔ (اللہ پاک کی پناہ)مَعْصِیَّتِ خالِق(یعنیاللہ پاک کی نافرمانی)میں کسی کی اِطاعت(یعنی فرماں برداری جائز)نہیں ،مَثَلًاماں چاہتی ہے کہ بیٹا اپنے باپ کو کسی طرح آزار(یعنی تکلیف)پہنچائے اور اگر بیٹا نہیں مانتا یعنی باپ پر سختی کرنے کیلئے تیّار نہیں ہوتا تو وہ ناراض ہوتی ہے، تو ماں کو ناراض ہونے دے اورہرگز اِس مُعامَلے میں ماں کی بات نہ مانے،اِسی طرح ماں کے مُعامَلے میں باپ کی نہ مانے۔عُلَمائے کرا م نے یوں تقسیم فرمائی ہے کہ خدمت میں ماں کو ترجیح ہے اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں کا بھی حاکم و آقا ہے۔(سمندری گنبد،ص۲۱)معلوم ہوا ماں باپ اگر کسی ناجائز بات کا حکم دیں تو اُن کی بات نہ مانیں اگر ناجائز باتوں میں اُن کی پَیْرَوِی کریں گی توگنہگار ہوں گی  مَثَلاً ماں باپ جُھوٹ بولنے کا حکم دیں تو اُن کی یہ  بات ہرگز نہ مانیں، چاہے وہ کتنے ہی ناراض ہوں،آ پ نافرمان نہیں ٹھہریں گی، ہاں اگر مان لیں گی توخد ا ئے حنّان ومنّان عَزَّ  وَجَلَّ کی ضَرور نافرمان قرارپائیں گی۔اِسی طرح ماں باپ میں باہَم طَلَاق ہوگئی تو اب