Book Name:Maan ke Dua ka Asar

اُن کے ہونٹوں پر مُسکُراہٹ(Smile)پھیل گئی، اُنہوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی رِسالت کی گواہی  دی اور اُسی وَقْت اِنتِقال  کرگئے ۔ قَصّاب واپَس آیا تو زَنْبِیْل(کھجور کے پتّوں سے بنے ٹوکرے)میں اپنے والِدَین کوفوت شُدہ دیکھ کر مُعامَلہ سمجھ گیا اور آپ(عَلَیْہِ السَّلَام)کی دَسْت بوسی کر کے عَرْض کی:آپاللہ پاک کےنبی حضرت سَیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَاممعلوم ہوتے ہیں!فرمایا:تمہیں کیسے اندازہ ہوا؟عرْض کی: میرے ماں باپ روزانہ گِڑ گِڑا کر دُعا کیا کرتے تھے کہ”ہمیں حضرت سَیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے جلووں میں مَوت نصیب کرنا“۔اِن دونوں کے اِس طرح اچانک اِنتِقال فرمانے سے میں نے اندازہ لگایا کہ آپ ہی حضرت سیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ہونگے۔قصّاب(قَصائی)نے مزید عرض کی:میری ماں جب کھانا کھالیتی،تو خوش ہوکر میرے لئے یوں دُعا کیا کرتی تھی:”میرے بیٹے کو جنّت میں حضرت سیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا ساتھی بنانا۔“حضرت سَیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: مبارَک ہوکہاللہ کریم نےتم کو میرا جنَّت کا ساتھی بنایا ہے۔(سمندری گنبد،ص۷ملخصاً)

پڑوسی بنا مجھ کو جنّت میں اُن کا                           خدائے محمد برائے مدینہ

(وسائل ِبخشش مرمّم،ص۳۶۹)

ماں کی دعاکے سبب عتیق

امیرُالمؤمنین حضرت سَیِّدُنا ابوبکر صِدِّیْق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکوعَتِیْقکہنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ آپ کی والِدہ کاکوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا،جب آپ کی والِدہ نے آپ کو جنم دیاتو وہ آپ کو لے کر بیتُ اللہ شریف گئیں اورگڑگڑا کر یوں دُعا مانگی:اے میرے پَرْوَرْدگار!اگر میرا یہ بیٹا مَوت سے آزاد ہے تو یہ مجھے عطافرمادے۔اس کے بعدآپ کو عَتِیْق کہا جانے لگا۔(تاریخ الخلفاء،ص ۲۲)