Book Name:Hajj Kay Fazail

حقیر بندہ تیرے دروازے پر حاضِر ہے،تیرا بِھکاری تیرے دروازے پر حاضِر ہے،تیرا مسکین بندہ تیرے دروازے پرحاضِر ہے،انہی الفاظ کو بار بار دُہراتے اور روتے رہے، پھر جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ واپس جانے لگے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا گزر چند مسکینوں کے پاس سے ہوا جو بیٹھے(صَدَقے کی) روٹیوں کے ٹکڑے کھارہے تھے،آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ان کو سلام کیا تو انہوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کھانے کی دعوت پیش کی،آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ(ان کی دلجوئی کی خاطر) اُن کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمایا:اگر یہ ٹکڑے(Pieces) صدقے کے نہ ہوتے تو میں آپ حضرات کے ساتھ کھانے میں ضَرور شرکت کرتا،پھر فرمایا:کھڑے ہوکر میرے ساتھ میرے گھر چلئے۔چنانچہ مساکین آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے  ساتھ چل دئیے،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں کھانا کھلایا،لباس پہنایا اور خادمین کو حکم دیا کہ انہیں دراہم بھی پیش کئے جائیں۔ (مستطرف،الباب الاول،الفصل الخامس فی الحج وفضلہ،۱/۲۳ )

حَسَنِ مُجتبیٰ سَیِّدُ الاَسْخِیا

راکِبِ دوشِ عزّت پہ لاکھوں سلام

(حدائقِ بخشش،ص۳۰۹)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                              صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمّد

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!دیکھاآپ نے کہ حضرت سَیِّدُناامام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے 20مرتبہ حج کیلئے پیدل سفر فرمایا اور مکۂ مکرمہ میں عاجزی و انکسار ی  کے پیکر بن کر بارگاہِ الٰہی  میں زاروقطارروتےہوئےاپنےلئےدعائیں بھی مانگیں،معلوم ہوا جب کسی کو حرمینِ طیبینکے سفر کی سعادت نصیب ہوتو مُناسِب بھی یہی ہے کہ انتہائی عاجزی وانکساری اور احترام کے ساتھ حاضری کی سعادت پائے۔حرمینِ طیّبین کے  سفرِسعادَت کی تَمنّا ہر عاشق  کے دل میں ہوتی ہے اورہونی بھی چاہیےبعض خُوش نصیبوں کی مُرادیں  بَرآتی ہیں اور وہ بَیْتُ اللہ شریف کی زِیارت  اور مَناسکِ حَج کی