Book Name:Riya kari

تاکہ اس مَرض کی  اچھی طرح تشخیص ہوجائے اور عِلاج کرنے میں آسانی رہے۔چُنانچہ

 اَمِیْرُالْمُؤمِنِین،مولائے کائنات،حضرت علیُّ المُرتَضٰی شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے ارشاد فرمایا: رِیاکار کی تین (3)علامتیں ہیں:(1)تنہائی میں ہو تو عمل میں سُستی کرے اور لوگوں کے سامنے ہو تو چُستی دِکھائے (2)تعریف کی جائے تو عمل میں اِضافہ کر دے اور(3)مَذمّت کی جائے تو عمل میں کمی کر دے۔( اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر ،الباب الاول فی الکبائر الباطینۃالخ ، الکبیرۃ الثانیۃ:الشرک الاصغرالخ، ۱/۸۶۔نیکی کی دعوت، ص ۸۰)

        اب ہمیں دِیانت داری کے ساتھ اپنی حالت پر غور کرنا چاہیے کہ عِبادَت کے مُعامَلے میں کہیں ہم تنہائی میں سُستی اور لوگوں کے سامنے چُستی کا مُظاہَرہ تو نہیں کرتے ؟ کہیں ہم نیکی کرنے کے بعد اس کا لوگوں کے سامنے بِلاضَرورت اِظہار تو نہیں کردِیاکرتے ؟ پھر اگر کوئی اس پر ہماری تعریف کردے تو”پُھول کر “ عمل میں اِضافہ تو نہیں کردیتے ؟ اور تعریف نہ ہونے کی صُورت میں کہیں غمگین تو نہیں ہوجاتے اور اس عمل میں کمی تو نہیں آجاتی؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں لوگوں کے سامنے نیکی کرنے میں بڑی لذّت ملتی ہو مگر تنہائی میں مَزا بالکل نہ آتا ہو ؟کہیں ہم اپنے بارے میں سیاہ کار، گُنہگار ، مُجرم ،فقیر،حقیر اور عاجزو مسکین جیسے اَلفاظ لوگوں کے سامنے  کہہ کر اُنہیں مُتأثِّر کرنے کی کوشش تو نہیں کرتے ؟ہم کہیں مذہبی حُلیے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے سے مُتأثِّر  ہونے والے دُکانداروں سے اس لئے تو سودا نہیں لیتے کہ وہ ہمیں مُفْت یاسستے داموں میں  دے؟اگر ان سُوالات کے جوابات ہاں میں آئیں تو فوراً سے پہلے توبہ کر لیجئے اور حُصُولِ اِخلاص کی کوشِشوں میں لگ جائیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ توبہ سے پہلے موت آجائے اور رِیاکاری کے سبب دوزخ میں ڈال دِیا جائے۔(نیکی کی دعوت ،ص۸۲)

عَطا کردے اِخْلَاص کی مجھ کو نعمت

 

نہ نزدیک آئے رِیا یاالٰہی

مری زِنْدگی بس تری بندگی میں

 

ہی اے کاش گُزرے سَدا یاالٰہی

 

 

(وسائلِ بخشش مُرَمّم، ص۱۰۶ )