Book Name:Riya kari

اعمال کا مُحَاسَبَہ  کرلیں ۔ ان مثالوں کو بَیان  کرنے کا ہرگزیہ مَقْصَدنہیں کہ ہم ان مثالوں کو بُنیاد بنا کر کسی دوسرے کو رِیاکارکہتے پھریں۔ کیونکہ رِیاکاری کا تعلُّق دل سے ہے اور کسی کے دل کے حالات پرہر کوئی مُطَّلع نہیں ہوسکتا۔لہٰذا اِن مثالوں پر قِیاس کر تے ہوئے کسی مُسلمان پر بدگُمانی نہ کی جائے،کیونکہ بدگُمانی بذاتِ خُود حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے اوراِسی طرح کسی کے بارے میں تَجسُّس یعنی گُناہ کی تلاش کرنا،اس کی پردہ دَرِی یعنی عَیْب کھولنااوراُس میں رِیاکاری کی عَلامات تلاش کرناتاکہ اس کو بدنام کِیا جائے،یہ بھی حَرام ہے۔ ان مثالوں کو عَرْض   کرنے کا مَقْصَد یہ ہے کہ  ہم اپنی نیکیوں کوخُود ٹَٹولیں اور غور کریں  کہ کہیں ہمارے کسی عمل میں رِیا  چُھپی ہوئی تَو نہیں؟ کیوں کہ رِیا چِیونٹی کے چلنے کی آہٹ سے بھی زِیادہ پوشیدہ طریقے سے عملِ خَیْر میں داخِل ہو جاتی ہے اور اُس عمل کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیتی ہےاور اس میں مبتلا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ’’رِیا‘‘ میں جو لذّت ہے وہ نہ عُمدہ غِذاؤں میں ہے نہ ہی مال و دولت کی کثرت میں،اِس سے بچنا بہت بہت بہت ضَروری ہے کہ یہ’’لذّت‘‘ جہنَّم میں پہنچانے والی ہے لہٰذا اگراپنے کسی نیک عمل میں رِیا کا شک بھی پائیں تو توبہ کریں اور اپنے آپ کو ڈرائیں کہ فرمانِ مُصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے:بے شک جہنَّم میں ایک وادی ہے، جس سے جہنَّم روزانہ چار سو (400)مرتبہ پناہ مانگتا ہے،یہ وادی اُمّتِ محمدیہ کے اُن رِیاکاروں کے لئے تیّار کی گئی ہے جو قرآنِ پاک کے حافِظ،غیرُ اللہ کے لئے صَدَقہ کرنے والے،اللہ عَزَّوَجَلَّکے گھر کے حاجی اور راہِ خدا عَزَّ  وَجَلَّ میں نکلنے والے ہوں گے۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر،۱۲/ ۱۳۶، حدیث :۱۲۸۰۳)

دولتِ اِخلاص ہم کو دیجئے

 

کیجئے رَحمت اے نانائے حسین

(وسائلِ بخشش مُرَمّم،ص۵۸)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عمل چھوڑنے کے بجائے علاج اختیار کِیا جائے