Book Name:Allah Walon ki Namaz

طاری تھی ،درد سے کراہنے یا چِلّانے کے بجائے زَبان پر ذکر و دُرود اور مُناجات کا سِلسلہ جاری ہوگیا،یکایک آپ دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ   نے پُوچھا:کیا نمازِ فجر کا وقت ہوگیا؟ اگر ہوگیا ہے تو مجھے پاک کر دِیا جائے ،اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ میں فجر کی نماز پڑھوں گا۔اُن کو بتایا گیا کہ فجر کو ابھی کافی دیر ہے۔([1])   

اعلیٰ حضرت، اِمامِ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن  ایک اِسْتِفْتاء کا جواب لکھنے سے پہلے جواب میں تاخیر کی وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:آپ کی رجسٹری ۱۵ ربیع الآخَرشریف کو آئی، میں ۱۲ ربیعُ الاَوّل شریف کی مجلس پڑھ کر(یعنی بیان کرکے ) شام ہی سے ایسا علیل (بیمار)ہوا کہ کبھی نہ ہوا تھا۔ میں نے وصیت نامہ لکھوا دِیا تھا۔ آج تک یہ حالت ہے کہ دروازہ سے مُتّصِل مسجد ہے، چار آدمی کُرسی پر بٹھا کر مسجد لے جاتے اور لاتے ہیں۔([2])

میں ساتھ جماعت کے پڑھوں ساری نمازیں

اللہ! عبادت میں مِرے دل کو لگا دے(وسائلِ بخشش)

سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  !اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ایسی سخت عَلالَت (بیماری)میں بھی جماعت چھوڑ کر گھر میں تنہا نماز پڑھ لینا گوارا نہ کیا حالانکہ اتنی شدیدعَلالَت بِلاشُبہ ترکِ جماعت کے لیے عُذْر ہے۔بانیِ اَلْجامعۃُ الاَشْرَفِیّہ حافِظِ مِلّت مولانا شاہ عبدُالعزیز مُحَدِّث مراد آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے اعلیٰ حضرت کی اِسی بیماری کا حال بیان کیا کہ ” ایک روز مسجد لے جانے والا کوئی نہ تھا، جماعت کا وقت ہوگیا، طبیعت پریشان(ہوگئی)، ناچار خود ہی کسی طرح گھسٹتے ہوئے (مسجد میں)حاضِر ہوئے اور باجماعت نماز ادا کی۔“آج صحت و طاقت اور تمام تر سہولت کے باوجود ترکِ نماز اور ترکِ جماعت کے ماحول میں یہ واقعہ ایک عظیم درسِ عبرت ہے۔لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ معمولی بیماری،دردِ سر  یا تھوڑی بہت پریشانی کی بِناء


 



[1] امیرِ اہلسنت کے آپریشن کی ایمان افروز جھلکیاں ،ص ۱۔۳ ملخصاً

[2]فتاویٰ رضویہ،۹/۵۴۷