Book Name:Faizan e Imam Ghazali

نے مجھے سخت بیمار کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ زبان کو یارائے گویائی نہ رہا(بات چیت کرنے کی  قُوت نہ رہی) قُوتِ ہضم بالکل ختم ہوگئی، طبیبوں نے بھی صاف جواب دے دیا اور کہا کہ ایسی حالت میں عِلاج سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا، آخر کار میں نے سفر کا قَطعی اِرادہ کر لیا۔ اُمَرائے وَقْت، اَرْکانِ سَلْطنت اور عُلمائے کرام نے نِہایت خُوشامد واِکْرام سے روکا، لیکن میں نے ان کی ایک نہ مانی اس لئے سب کو چھوڑچھاڑ کر شام کی راہ لی(اور پھر ایک وَقْت آیاکہ شام سے اپنے آبائی وَطن ’’طوس‘‘ تشریف لے گئے )۔ (تعریف الاحیاء بفضائل الاحیاء علی ہامش احیاء علوم الدین، ج۵، ص۳۶۵تا۳۶۸، ملخصا)

دُنیا سے بے رَغبتی:

الغرض رُوحانی سُکون کی خاطرآپ نے مَنْصبِ تدریس چھوڑدیا ۔دُنیاکی گُوناگُوں مَصْروفیات اوررَنگا رنگی سے بالکل کنارہ کَشی اِخْتیار کرلی حتّٰی کہ لباسِ فاخِرہ (قیمتی لباس)کے بَجائے ایک کمبل اَوڑھا کرتے تھے اورلَذیذ غِذاؤں کی جگہ ساگ پات پرگُزر بَسر ہونے لگی ۔اپنے شہرطُوس پہنچ کرصُوفیا کے لئے ایک خانقاہ اورشوقِ عِلْم رکھنے والوں کے لئے ایک مدرسہ تعمیر کیااورپھرتادمِ حَیات اَوْراد و وَظائِف،رِیاضت وعِبادت،گوشہ نشینی اورتدریسِ تَصوُّف میں مشغول رہے۔(مرآۃ الجنان وعبرۃ الیقظان، ج۳، ص ۱۳۷، ملخصًا)

حضرت سَیِّدُناابُومنصورسعیدبن محمدعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الصَّمَد بیان فرتے ہیں :’’جب پہلی بارحضرت سیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی عالمانہ شان وشوکت کے ساتھ بغداد میں داخل ہوئے تو ہم نے ان کے لِباس وسواری کی قیمت لگائی تو وہ 500 دینار بنی، پھر جب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے زُہد وتَقْویٰ اِخْتیار کیا اور بغداد چھوڑدیا، مختلف مَقامات کا سفرکرتے رہے اوردوبارہ جب بغداد میں داخل ہوئے تو ہم نے ان کے لباس کی قیمت لگائی تووہ پندرہ (15)قیراط (یعنی چند معمولی سِکّے)بنی ۔‘‘