Book Name:Faizan e Imam Ghazali

                                                                                                 (المنتظم فی تاریخ الملوک والامم، ج٩، ص ۱۷۰۔)

پروردگارِ عالی دے جذبۂ غزالی

کر ہم کو خوش خِصالی کر یہ دُعا رہے ہیں

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

       میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! دیکھا آپ نے کہ حضرت سَیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی  نےتمام تَر مَراتب ِ عالیہ  چھوڑ  کرعلم ِ تَصوُّف سے مانُوس ہوکر اس کی چاشنی حاصل کرنے کےلیے راہِ خدا میں سفر اِختیار کیااور تمام تَرآسائش و سہولیات کوتَرک کردیا۔اس کے بعدپوری زِنْدگی اسی طرزِ صُوفیانہ میں گُزار دی۔ اگر ہم اپنی حالت  پر غور کریں تو ہماری اَکْثریت آج دُنیا کی مَتْوالی اورفکرِآخِرت سے خالی ہے، ہم میں سے کچھ تو وہ ہیں جوفانی دُنیا کی لذّتوں کے باعِث مَسرور وشاداں ، زَوال و فَنا سے بے خوف، موت کے تصوُّر سے ناآشنا ، لذّاتِ دُنیا میں بد مست ہیں،تو بعض وہ ہیں جو اِس دارِ ناپائیدار میں یکایک موت سے ہمکَنار ہونے کے اَندیشے سے نَابَلَد،سَہولتوں اورآسائشوں کے حُصُول میں اس قَدَر مگن ہوگئے کہ قَبْرکے اَندھیروں، وَحشتوں اور تنہائیوں کو بُھول گئے۔آہ! آج ہماری ساری توانائیاں صِرف و صِرف دُنیوی زِندگی ہی بہتر بنانے میں صَرف ہورہی ہیں، آخرت کی بہتری کے حُصُول کی فکر بہت کم دِکھائی دیتی ہے ۔ ذرا غور تو کیجئے کہ اس دُنیا میں کیسے کیسے مالدار لوگ گُزرے ہیں، جو دولت و حکومت، جاہ و حَشمت، اَہل و عِیال کی عارِضی اُنْسِیّت ، دوستوں کی وَقْتی مُصَاحَبت اور خُدّام کی خُوشامدانہ خِدْمت کے بھرم میں قَبْر کی تنہائی کو بُھولے ہوئے تھے۔مگرآہ! یکایک فَنا  کا بادَل گرجا، موت کی آندھی چلی اور دُنیا میں تادیر رہنے کی ان کی اُمّیدیں خا ک میں مل کر رہ گئیں، ان کے مَسرَّتوں اور شادمانیوں سے ہنستے بستے گھرموت نے وِیران کردیئے ۔ روشنیوں سے جگمگاتے مَحَلّات و قُصُور سے اُٹھا کر انہیں گُھپ اندھیری قُبُور میں منتقل کردیا گیا۔آہ ! وہ لوگ کل تک اَہل وعِیال کی رونقوں میں شادمان ومَسرور تھے