یمن کی اسلامی تاریخ (قسط:02)

تاریخ کے اوراق

یمن کی اسلامی تاریخ(قسط:02)

*مولانا محمد آصف اقبال عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ نومبر2023


یمن کی فتح 8 سن ہجری میں ہوئی لیکن حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یمن سمیت بعض ملکوں کے فتح ہونے کی غیبی خبر برسوں پہلے دے دی تھی۔ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ خبر ارشاد فرمائی کہ یمن فتح کیا جائے گا تو لوگ مدینے سے اپنی سواریوں کو ہنکاتے ہوئے اور اپنے اہل و عیال کو لے کر یمن چلے جائیں گے حالانکہ مدینۂ منوّرہ ان کے لیے بہتر تھا۔ کاش وہ لوگ اس بات کو جانتے۔ ([1])غزوۂ خندق کے موقع پر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک چٹان پر تین مرتبہ پھاؤڑا (Spade) مارا، ہر ضرب پر اس میں سے ایک روشنی نکلی اور اس روشنی میں آپ نے شام و ایران اور یمن کے شہروں کو دیکھ لیا اور ان تینوں ملکوں کے فتح ہونے کی بشارت دی۔جب تیسری ضرب لگائی تو سارا پتھر ٹوٹ گیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ بہت بڑا ہے! مجھے یمن کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اوراللہ کی قسم میں صَنْعاء کے دروازوں کو یہاں سے دیکھ رہا ہوں۔([2])

یمنی حکمرانوں کو دعوتِ اسلام:

حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ابتدا میں جن حکمرانوں اور سلاطین کی طرف دعوتِ اسلام کے لئے خطوط روانہ کیے ان میں یمنی حکمران بھی شامل تھے، جن خوش نصیبوں نے اسلام قبول کرکے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں نیازمندیوں سے بھرے ہوئے خطوط بھیجے ان میں یمن کے شاہان حِمْیَر بھی تھے، ان میں سے جن جن بادشاہوں نے مسلمان ہوکر بارگاہِ نبوت میں عرضیاں بھیجیں جو غزوهٔ تبوک سے واپسی پر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پہنچیں ان بادشاہوں کے نام یہ ہیں:(1)حارث بن عبد کُلال (2)نُعیم بن عبد کُلال (3)نعمان حاکم ذورُعَیْن و مَعافِر و ہَمْدان (4)زُرْعہ۔یہ سب یمن کے بادشاہ ہیں۔([3])یمنی بادشاہوں کی اولاد میں اسلام قبول کرنے والے ایک حضرت وائل بن حجر رضی اللہُ عنہ بھی ہیں۔حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان  سے فرمایا:وائل بن حجر تمہارے پاس دور دراز زمین حضرموت سے آئے ہیں، یہ بخوشی و رغبت اللہ پاک اور اُس کے رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف آئے ہیں۔ اور یہ بادشاہوں کی اولاد سے ہیں۔([4])

یمن والوں کو دعوتِ اسلام کے لئے مبلغین کی روانگی:

حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اہلِ یمن کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان  کو بھیجا، ابتدا میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہُ عنہ کو اُن کی طرف روانہ کیا،پھر حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کو بھیجا۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہُ عنہ کو یمن والوں کے پاس اسلام کی دعوت دینے کے لئے بھیجا تو میں ان کے ساتھ جانے والوں میں شامل تھا، وہ یمن والوں میں نو ماہ رہے، اہل ِیمن نے ان کی دعوت کا کوئی جواب نہ دیا۔ تو پھر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت علی رضی اللہُ عنہ کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہُ عنہ کی جگہ اس بات کا حکم دے کر بھیجا کہ وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہُ عنہ کو ان کے ساتھیوں سمیت واپس بھیج دیں، اگر ان کے ساتھیوں میں سے کوئی حضرت خالد رضی اللہُ عنہ کے ساتھ واپس نہ آنا چاہے تو اسے رہنے دیں۔ حضرت بَرّاء رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ان میں شامل تھا جو حضرت علی رضی اللہُ عنہ کے ساتھ سرحد کے پاس رہنے والے اہلِ یمن کی طرف روانہ ہوئے، لوگ ان کے لئے جمع ہوگئے پھر حضرت علی رضی اللہُ عنہ نے ہمیں نماز فجر پڑھائی، نماز سے فارغ ہو کر ہم ایک صف میں کھڑے ہو گئے پھر آپ نے ہماری جانب متوجہ ہو کر اللہ پاک کی حمد وثنا کی، اس کے بعد وہاں کے لوگوں کو حضور نبیِّ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خط پڑھ کر سنایا تو تمام اہلِ ہمدان ایک ہی دن میں ایمان لے آئے، آپ نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خط میں یہ ماجرہ لکھ بھیجا، جب رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کا خط پڑھا تو تکبیر کہتے ہوئے سجدہ ادا کیا پھر تین مرتبہ فرمایا: ”ہَمْدان والوں پر سلام ہو۔“ ہمدان والوں کے بعد دیگر اہلِ یمن بھی اسلام کی طرف آگئے۔([5])

اہلِ یمن کی ایمان لانے میں پیش قدمی:

اہلِ یمن خیروبھلائی کی طرف مائل ہونے والے تھے، اعلانِ نبوت کی خبر ملتے ہی بعض نے اسلام قبول کرنے میں پیش قدمی کی۔چنانچہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہُ عنہ تجارت کے لئے یمن گئے ہوئے تھے۔اِسی دوران حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکہ مکرمہ میں اعلانِ نبوت فرمایا، عَسْکَلان بن عَوَاکِن حِمْیَری کو خبرملی انہوں نے اپنے ایمان کا اظہار اشعار کی صورت میں کیا اور وہ اشعار حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہُ عنہ کے ذریعے بارگاہِ رسالت میں بھیج دیئے، ان میں سے د و شعر یہ ہیں:

اشھد باللہ ربّ موسٰی                                     انک ارسلت بالبطاح

فکن شفیعی الی ملیک                                      یدعو البرایا الی الصّلاح

ترجمہ: میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے رب، اللہ پاک کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ آپ وادیٔ مکہ میں رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ پس آپ میرے شفیع بنیں اس بادشاہ کی طرف جو مخلوق کو بھلائی کی طرف بلاتاہے۔

حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ اشعار سن کر فرمایا: اَمَا اِنَّ اَخَا حِمْیَر مِنْ خَوَاصّ الْمُؤمِنِیْنَ وَ رُبَّ مُؤْمِنٍ بِیْ وَ لَمْ یَرَ نِیْ وَ مُصَدِّق بِیْ وَ مَا شَھِدَنِیْ اُولٰئِکَ اِخْوَانِیْ حقًّا یعنی آگاہ رہو! بےشک میرا بھائی حِمْیَری خاص مومنین میں سے ہے اور بعض مجھ پر ایمان لانے والے جنہوں نے مجھے نہیں دیکھا اور میری تصدیق کرنے والے جو میرے پاس حاضر نہیں ہوئے، وہ میرے سچے بھائی ہیں۔([6])

یمن کے پانچ حکمران جن کا تعلق مدینے شریف سے تھا:

ملکِ یمن میں اسلام پہنچ جانے کے بعد وہاں کے شرعی وانتظامی امور چلانے کے لیے حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خاص اہتمام فرمایا۔چنانچہ علامہ بدر الدین عینی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جب رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 9ہجری کو غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لائے تو آپ نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہُ عنہما کو حاکم بناکر یمن کی طرف بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں اور اُن سے زکوٰۃ وصول کریں۔حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یمن کو پانچ صحابَۂ کرام پرتقسیم فرمایا تھا: حضرت خالد بن سعید رضی اللہُ عنہ کو صنعاء کا حاکم بنا یا، حضرت مہاجر بن اَبی اُمَیَّہ رضی اللہُ عنہ کو کندہ کا، حضرت زیاد بن لبید رضی اللہُ عنہ کو حضرموت کا، حضرت معاذ رضی اللہُ عنہ کو جندل کا اور حضرت سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہُ عنہ کو زبید، عدن اور ساحل کا۔ پھر ارشاد فرمایا:اَہلِ یمن کو دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ پاک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور  اس بات کی گواہی کہ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ کے رسول ہیں۔ ([7])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، شعبہ تراجم، المدینۃ العلمیہ کراچی)



([1])مسلم،ص551، حدیث: 3364

([2])مواہب لدنیہ مع الزرقانی، 3/31

([3])سیرت مصطفیٰ، ص373

([4])مسند البزار،10/ 354،حدیث:4486

([5])بخاری،3/123،حدیث:4349-مسند الرويانی، 1/ 218، حدیث: 304

([6])الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 5/98ملتقطاً

([7])عمدۃالقاری، 6 / 323، تحت الحدیث: 1395


Share

Articles

Comments


Security Code