جن کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے

نبیِّ کریم، رَءُوْفٌ رّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اللہ ربّ العزّت کے اَولیا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:” اَلَّذِيْنَ اِذَا رُؤُوْا ذُكِرَ اللهُیعنی (اَولیاءُ اللہ) وہ لوگ ہیں کہ جنہیں دیکھنے سے اللہ  عَزَّوَجَلَّ  یاد آجائے۔(سنن کبریٰ للنسائی،ج10،ص124،حدیث:11171)

اِس حدیثِ پاک کی شرح میں حضرتِ سیّدُنا علّامہ عبدُالرّءُوف مناوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:”یعنی وہ لوگ جو اللّٰہ تعالٰی کے ذِکْر کو لازم کر لیتے ہیں اور اللّٰہ تعالٰی انہیں عزّت و کَرامت سے نوازتا ہے ( وہ لوگ ہیں جنہیں دیکھنے سے اللّٰہ یاد آجائے)یعنی اُن پر ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں کہ جو اللّٰہ تعالٰی  کا ذِکْر یاد کروا دیتی ہیں،اگر اُن کی طرف نظر کی جائے تو بھلائی یاد آجاتی ہے اور اگر وہ کہیں تشریف لائیں تو (ان کو دیکھتے ہی) لوگوں کی زبانوں پر ذِکْر بھی جاری ہوجاتا ہے اور ایسا شخص  جو اپنے ربّ اور آخرت کو (ہمیشہ) پیشِ نظر رکھے جب وہ تجھ سے ملے گا تو اللّٰہ کے ذِکْر کے ساتھ ہی کلام کرے گا اور جو شخص اپنے نفس اور دنیا کا غلام ہو جب وہ تجھ سے ملے گا تو دُنیاوی کلام ہی کرے گا۔ لہٰذا جس شخص کے دل پہ جو کچھ آشکار ہوا ہے اُسی کے بارے میں تیرے ساتھ بات کرے گا(لہٰذا تم خبردار ہوجاؤ)۔(فیض القدیر ،ج3،ص105،تحت الحدیث:2810)

حضرت سیّدُنا علّامہ شرف الدّین حسین طِیْبی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: یہ حدیث دو باتوں کا اِحتِمال رکھتی ہے: (1)ایک یہ کہ وہ اللّٰہ تعالٰی کے ایسے خاص  لوگ ہوتے ہیں کہ جب اُن کی زیارت کی جاتی ہے تو زیارت کرنے والوں کو اللّٰہ تعالٰی یاد آجاتا ہےکیونکہ اُن میں عبادت کی علامات  پائی جاتی ہیں۔ (2)دوسرا یہ کہ جو بھی اِن کو دیکھتا ہے وہ اللہ    عَزَّوَجَلَّ   کا ذِکْر کرتا ہے۔ (شرح الطیبی،ج 9،ص146)

زیارتِ علی کی بَرَکتیں: جب حضرتِ سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم لوگوں کے درمیان تشریف لاتے تو لوگ کہتے: لَااِلٰہَ اِلَّااللہ،اِس جوان سے زیادہ سخی کوئی نہیں، اِس جوان سے زیادہ بہادر کوئی نہیں، اِس جوان سے زیادہ  علم والا کوئی نہیں،اِس جوان سے زیادہ حِلم والا کوئی نہیں۔ حضرتِ سیّدُنا  علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کو دیکھنا لوگوں کو کلمۂ توحید پر اُبھارتا تھا۔( مرقاۃ المفاتیح ،ج 8،ص607، تحت الحدیث: 4871)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بہت سے بُزُرگانِ دین رحمہم اللہ المبین ایسے گزرے ہیں جن کی صحبت سے لوگوں کے حالات وکیفیات بدل جاتی تھیں،جیساکہ پیروں کے پیر، پیرِ دستگیر، روشن ضمیر،قطبِ ربّانی، محبوبِِ سبحانی، غوث الصمدانی، حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی صحبت سے نہ صرف گنہگار تائب ہوتے، بلکہ بڑے بڑے اولیا بھی ولایت کے مراتِب طے کرلیتے تھے، غیر مسلموں کو ایمان نصیب ہوجاتا تھا، بد نصیبوں کی بگڑی بن جاتی تھی، غریبوں کی جھولیاں مُرادوں سے بھر جاتی تھیں، بد عقیدہ لوگ خوش عقیدہ ہوجاتے تھے، الغرض دین و دنیا کی ڈھیروں بھلائیاں اس پاک بارگاہ سے نصیب ہوتی تھیں۔

موجودہ دور میں شیخِ کامل،امیرِ اَہلِ سُنّت حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی زندگی ہمارے سامنے ہے، جنہوں نے ہمیشہ آخرت کے معاملات کو مقدّم رکھا اور عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے ذریعے فکرِآخرت کو عام کیا۔یہ آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے  اَوصافِ جمیلہ واخلاقِ حسنہ ، علم و عمل، ظاہر و باطن کی موافقت، خشیّتِ اِلٰہی و عشقِ رسول،اِطاعتِ الٰہی اور اِطاعتِ رسول کی بَرَکت ہے کہ اِنہیں دیکھنے اوران کی صحبت اِختِیار کرنےو الے کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے اور  نہ صرف اُن کی زبان پر ذِکْرُاللہ جاری ہوتا ہے بلکہ آپ کی صحبتِ بابرکت کی وجہ سے اُن کی پوری زندگی سنّتوں والی اور شریعتِ مُطَہَّرہ پر عمل کرتے ہوئے گزرتی ہے اور اِس کا واضح مُشاہَدہ پوری دنیا کررہی ہے کہ ہزاروں نہیں لاکھوں کی زبانیں ذِکْرُاللہ و دُرُود شریف سے تَر ہیں اور ان کی زندگیاں نماز کی پابندی، نگاہوں کی حفاظت اور حدودُ اللہ کی پاسداری کرتے ہوئے گزر رہی ہیں۔

اللّٰہ تعالٰی ہم سب کو اولیائے کرام کے فیوض و برکات سے حصّہ عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* دارالافتاء اہلِ سنّت اقصٰی مسجد، باب المدینہ کراچی

 


Share

Articles

Comments


Security Code