
بیٹیوں کی تربیت
ایونٹس اور بیٹیوں کے معمولات
*ام میلاد عطاریہ
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025
فی زمانہ بہت سی ایسی مسلم خواتین جو مغربی تہذیب سے متاثر ہیں وہ شرم و حیا ، پردہ داری ، رہن سہن اور چال چلن کے متعدد معاملات میں اسلامی طرزِ عمل اپنانے میں شرم و عار محسوس کرتی ہیں مگر جن خواتین کو اسلامی شعور نصیب ہے اور وہ اسلامی معاشرے میں زندگی گزار رہی ہیں یااسلامی کُتب و رسائل سے شغف (Passion) رکھتی ہیں انہیں اسلام کا ہر پہلو شہد و شِیر سے زیادہ شیریں (Sweeter than honey and milk) محسوس ہوتا ہے۔
ایمان اور اللہ رسول سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اسلام کے تمام احکام سمیت پردہ و حیاء کے اسلامی احکامات پر بھی اسی طرح مضبوطی سے عمل کیا جائے جس طرح اوائلِ اسلام کی خواتین نے عمل کیا۔وہ کس قدر مقدس اور عظیم عورتیں تھیں جنہوں نے اس دنیا کو بہترین علما عطا کئے۔ وہ مائیں وہ بیویاں عظیم ہونگی جنہوں نے اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات کی اطاعت کر کے خود کو کامیاب بنالیا۔ قوم کو اپنی نیک تربیت سے نیک اور بہادر بیٹے دیئے۔ آج کی عورت کو اگر پردے کی تلقین کریں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ پردہ آنکھوں کا ہوتا ہے۔ ایسی عورتوں کو کس طرح سمجھائیں کہ پردہ کریں گی تو آپ فتنے سے محفوظ رہیں گی۔
بیٹی کو صحیح تربیت دینے اور انہیں معاشرے کا صحیح کردار ادا کرنے کا سبق ماں کی گود سے ہی ملنا چاہئے کیونکہ بیٹی اپنی ماں کی تربیت اور باپ کی نگہبانی سے ہی معاشرے اہم ترین جُزو بنتی ہے۔ اِسلام نے عورت کو پردے و حِجاب کی صورت میں جو عظمت عطا کی، عہدِ رسالت کی بلند ہمت عورتوں نے اسے اس قدر اپنایا کہ حِجاب آزاد مسلمان عورت کی عَلامَت بن گیا۔ پردہ وُہی کرے گی جس کادل اچّھا اور اللہ پاک کی اطاعت کی طرف مائل ہو گا۔
افسوس! آج کل ایونٹس میں ہماری بیٹیوں کا اوڑھنے پہننے، سج دھج کرنے اور نمود و نمائش وغیرہ میں جو انداز ہے بعض نادان خود اپنی بیٹیوں کو ان ایونٹس پر رسموں کے نام پر ایسا کرنے کو کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی تو رونق ہے ، سارا سال باپردہ رہنے والی بیٹی بھی مختلف ایونٹس میں بےپردہ نظر آتی ہے، لباس ایسا ہوتا ہے کہ بدن کے اعضا ظاہر ہوتے ہیں سر سے دوپٹہ بھی غائب ہوتا ہے۔ اللہ رسول کے احکامات کی خلاف ورزی کے بغیر بھی تقریبات انجام دی جاسکتی ہیں جیسا کہ دینی ذہن رکھنے والے محتاط لوگ کرتے ہیں کہ ایونٹس میں لیڈیز کے لئے الگ اور جینٹس کے لئے الگ اہتمام کیا جاتا ہے، بیٹیوں کے لباس پر توجہ دی جاتی ہے دوپٹہ سر پر رہتے ہوئے اچھا اور باپردہ لباس منتخب کیا جاتا ہے۔ اچھا اور برانڈڈ لباس پہننا منع نہیں بلکہ ہر جائز زینت اپنائی جاسکتی ہے مگر ضروری یہ ہے کہ صنفِ نازک اپنی زینت غیر مردوں پر ظاہر نہ کرے۔
اگر پردے اور رسم و رواج کے معاملے میں معاشرتی رُکاوٹ آئے تو ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ہم رَسم و رَواج کے نہیں بلکہ قراٰن و حدىث کے پابند ہىں۔ ہمیں اللہ و رسول کے اَحکامات ماننے چاہئے اور یہ اَحکامات جاننے کے لئے ہمیں عُلَمائے کِرام کا دامن پکڑنا ہو گا۔ گھر میں خوشی غمی کی کوئی بھی تَقریب ہو اُسے شَریعت کے مُطابق کرنے کے لئے کسی عاشِقِ رَسول مُفتىِ اِسلام سے راہ نُمائی لی جائے کہ ہمارے ہاں منگنی یا ولیمے کی تَقریب ہے اس میں ہمیں کیا کیا اِحتیاطیں کرنی چاہئیں۔ مُعاشرے کو رَسم و رَواج چُھڑا کر شَریعت کا پابند بنانے کے لئے دعوتِ اسلامی کو پَروان چڑھانا ہو گا۔ اَلحمدُلِلّٰہ دعوتِ اسلامی سے وابستہ افراد کا یہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ ہمیں شَرعی اَحکامات کے مُطابق اپنے مُعاملات انجام دینے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں منگنی اور شادی کے ایونٹس پر مختلف رسومات ادا کرنے کا بہت زیادہ رواج ہے۔ پھر ہر علاقے، ہر قوم اورہر خاندان کی اپنی مخصوص رسوم ہوتی ہیں۔ چونکہ یہ رسوم محض عرف کی بنیاد پر ادا کی جاتی ہیں اور کوئی بھی انہیں فرض وواجب تصور نہیں کرتا لہٰذا جب تک کسی رسم میں کوئی شرعی قباحت نہ پائی جائے اسے حرام و ناجائز نہیں کہہ سکتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مختلف ایونٹس میں ہماری بیٹیوں کے معمولات کیا ہوتے ہیں؟ آیا وہی زمانہ جاہلیت والی (رسموں کے نام پر) بےپردگی، بےحیائی اور گناہوں کی بھرمار یا عقل و شعور رکھتے ہوئے شرعی تقاضوں کے مطابق معمولات ہوتے ہیں؟ فی زمانہ رسومات کے اپنائے جانے والے کثیر طور طریقے ناجائز ہیں لیکن حیاء وشرم کو نظر انداز کر کے ان رسومات کو ضرور پورا کیا جاتا ہے۔ اکثر گھروں میں رواج ہے کہ شادی کے ایام میں رشتہ داراور محلے کی عورتیں جمع ہو کر ڈھولک بجاتی اور گیت گاتی ہیں، ان میں جوان کنواری لڑکیاں بھی شریک ہوتی ہیں۔ عشقیہ و فسقیہ اشعار پڑھنا یا سننا ان کے اخلاق و عادات و جذبات پر کیا اثر کرے گا یہ بات ایسی نہیں جو سمجھ میں نہ آسکے۔ (ماخوذ از بہار شریعت، 2/105) جو ان لڑکیوں کا گانا بجانا حرام ہے۔ عورت کی آواز کا بھی نامحرموں سے پردہ ہونا ضروری ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اگر عورت نَماز پڑھ رہی ہو اور کوئی آگے سے گزرنا چاہے تو یہ عورت سبحان اللہ!کہہ کر اس کی اطِّلاع نہ دے بلکہ تالی سے خبر دے یعنی سیدھے ہاتھ کی انگلیاں الٹے ہاتھ کی پشت (back) پر مارے۔ (ردالمحتارعلی الدر المختار، 2/486) جب آواز کی اس قدر پردہ داری ہے تو یہ مروّجہ (Prevalent) گانے اور باجے کا کیا پوچھنا۔
اسی طرح مہندی کی رسم ہے، رخصتی کے موقع پر دُودھ پلائی اور جوتا چُھپائی کی رسم ادا کی جاتی ہے جس میں ایسی ایسی خُرافات ہوتی ہیں کہ اَلْاَمان و َالْحَفیظ ۔ بعض تو اتنے بےباک ہوتے ہیں کہ اگر شادی میں یہ حرام کام نہ ہوں تو اسے غمی اور جنازہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ خیال نہیں کرتے کہ ایک تو گناہ اور شریعت کی مخالفت ہے، دوسرے مال ضائع کرنا، تیسرے تمام تماشائیوں کے گناہ کا یہی سبب ہے اور سب کے مجموعہ کے برابر اس پر گناہ کا بوجھ۔ مگر آہ! ایک وقتی خوشی میں یہ سب کچھ کر لیا جاتا ہے۔ گناہ کی لذت تھوڑی دیر کی ہوتی ہے مگر گناہ نامہ اعمال میں ہمیشہ کے لئے لکھا جاتا ہے۔خلاصۂ کلام یہ کہ *ایک تو ہر کام سے پہلے شرعی رہنمائی لیں۔ * باپردہ رہیں اور لباس درست پہنیں۔ * ایونٹ کی جگہ مردوں کی آمد و رفت نہ ہو۔ * کسی بھی غیر شرعی کام میں حصہ نہ لیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے کہ اپنے ہر کام کو شریعت کے مطابق کریں اللہ و رسول کی مخالفت سے بچیں اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔ اے کاش! سب کو چادرِ حیاء نصیب ہوجائے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن
Comments