Book Name:Qaroon Ko Naseehat

خرچ کریں تو دُنیا بھی ختم، جوانی بھی ختم *ہم اپنی طاقت دُنیا پر خرچ کریں، دُنیا بھی ختم، طاقت بھی ختم *ہم اپنا مال دُنیا بنانے میں خرچ کر دیں تو دُنیا بھی ختم، مال بھی ختم...!! اور اگر ہم *اپنی جوانی*اپنی طاقت*اپنی ذہانت*اپنی سوچ*اپنی صلاحیتیں*اپنا مال دُنیا کے لئے نہیں بلکہ آخرت کے لئے خرچ کریں تو یہ *جوانی*طاقت*مال و دولت وغیرہ اگرچہ ختم ہوجائیں گی مگر آخرت باقی رہے گی۔ اس لئے عقل مند وہ ہے جو دُنیا کا نہیں بلکہ آخرت کا طلب گار بنتا ہے۔

انسان کو وہی کچھ ملے گا جو آگے بھیجا ہو گا

ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبد العزیز  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کے ساتھ کسی سَفَر کے لئے روانہ ہوئے۔ (پہلے دَور میں اُونٹ اور گھوڑوں وغیرہ پر سَفَر ہوتا تھا اور خادِموں کے ذریعے خیمے اور ضرورت کا سامان پہلے سے مَنْزِل پر پہنچا دیا جاتا تھا تاکہ وہاں پہنچنے تک خیمے تیار ہوں)، چنانچہ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک اور دیگر لوگوں نے اپنے خیمے آگے بھجوا دئیے مگر حضرت عمر بن عبد العزیز  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے اپنا سامان اور خیمہ پہلے سے آگے نہ بھجوایا۔ جب مَنْزِل پر پہنچے تو ہر شخص اپنے خیمے میں چلا گیا لیکن حضرت عمر بن عبد العزیز  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کہیں نَظَر نہیں آرہے تھے،خلیفہ نے خادِموں سے کہا:جاؤ! اُنہیں تلاش کرو...!!  تلاش کیا گیا تو آپ اس حال میں ملے کہ ایک دَرْخَت کے نیچے بیٹھے زار و قطار رو رہے ہیں۔خلیفہ کو اِطلاع دی گئی، اس نے آپ  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کو بُلا کر پوچھا:  اے اَبُو حَفْص (عمر بن عبد العزیز)! آپ کیوں رو رہے ہیں؟  حضرت عمر بن عبد العزیز  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے فِکْرِ آخرت میں ڈُوبا ہوا، سبق آموز جواب دیا، فرمایا: مجھے قِیامت کا دِن یاد آ گیا۔ دیکھئے! (آپ سب نے خیمے پہلے سے بھیجے تھے، آپ آتے ہی اپنے اپنے خیمے میں چلے گئے مگر) میں نے گھر سے کوئی چیز آگے نہیں بھیجی