Book Name:Din Raat kaise Guzarain
حضرت عبید اللہ بن سُمَیْط رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں نے اپنے والدِمحترم کو فرماتے سُنا: مؤمن بندہ اپنے آپ کو یوں سمجھاتا ہے: اے نفس! یہ دُنیاوِی اور فانی زِندگی(Mortal Life) صِرْف 3 دِن ہی تو ہے، ایک دِن گزر گیا، دوسرا وہ جو گزر رہا ہے، سمجھ لے کہ بس یہ بھی گزر گیا اور تیسرا دِن آنے والا کل ہے اور وہ تو ایک کھوکھلی اُمِّید (Hollow Hope)ہے جسے شاید تُو نہ پا سکے، بالفرض اگر تُو کل تک زِندہ رہا تو کل کا دِن تیرا رِزْق (Sustenance) اور نہ جانے کتنے لوگوں کے لئے موت کا پیغام ساتھ لے کر آئے گا، ہو سکتا ہے تُو بھی انہی میں شامِل ہو جنہیں موت کا پیغام ملنے والا ہے، پھر اگر مزید زِندگی ملی تو تیرے کمزور و ناتواں دِل پر غربت، بیماری اور آفات کا غم مسلط رہے گا، جب تجھے اتنے سارے دُنیاوی غم ہوں گے تو تیرا دِل فِکْرِ آخرت کی طرف کیسے متوجہ ہو گا؟ یاد رکھ! ہر گزرتا دِن تیری عُمر کو کم کرتا چلا جا رہا ہے، لیکن تجھے کوئی پرواہ نہیں، وہ شخص آخرت کے لئے کیا تیاری کرے گا جس کی دُنیاوی خواہشات ہی پُوری نہیں ہوتیں؟ کتنا نادان اور عجیب ہے وہ مسلمان جسے یقین ہے کہ یہ دُنیا فانی ہے، آخرت (Hereafter)باقی رہنے والی ہے، پھر بھی باقِی رہنے والی زِندگی کو چھوڑ کر فانی زِندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے غم میں الجھا ہوا ہے۔([1])
پیارے اسلامی بھائیو! بات واقعی سچی ہے، ہمیں دُنیاوی فکریں ایسی لپٹی ہیں کہ فِکْرِ آخرت کا تو وقت ہی نہیں ملتا، ہر وقت بس دُنیا کمانے ہی کی فِکْر ہے، جنّت کمانے، آخرت