Dam Dam Dastgeer

Book Name:Dam Dam Dastgeer

سَر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا                                 اولیا مَلتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا([1])

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                                               صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

آیتِ کریمہ کی مختصر وضاحت

آئیے! آیتِ کریمہ سُنتے اور سمجھتے ہیں۔  اللہ  پاک نے فرمایا:

وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ

(پارہ:15، سورۂ کہف:28)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان :اور اپنی جان کو مانوس رکھ ۔

مانُوس ہونے کا مطلب ہوتا ہے: دِل لگ جانا، عادَت پڑ جانا، جیسے ہمارے ہاں ماحَوْل بن گیا ہے نا،  اللہ  کرے یہ ماحول بدل جائے، لوگ موبائِل کے ساتھ مانُوس ہو گئے ہیں، ایک بار پکڑ لیں تو چھوڑنے کو دِل ہی نہیں کرتا، گھنٹوں گزر جاتے ہیں، احساس ہی نہیں ہوتا۔ اسے مانُوس ہونا کہتے ہیں۔  اللہ  پاک نے فرمایا: اپنے جان کو مانُوس کر لو...!!

کس کے ساتھ؟ فرمایا:

مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ

(پارہ:15، سورۂ کہف:28)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان :  ان لوگوں کے ساتھ جو صبح و شام اپنے ربّ کو پکارتے ہیں۔

یہاں ایک قاعِدہ یاد رکھیے! حکم کا تَعلُّق جب صِفَت کے ساتھ ہو تو اُس میں عمومیت ہوتی ہے۔ سادہ مثال سے عرض کروں؛ آپ سے کہا جائے: اَحْمد رضا کے ساتھ رہا کیجیے! اِس کا مطلب ہو گا کہ ایک خاص شخص جس کا نام اَحْمد رضا ہے، اُس کی صحبت میں رہنا ہے۔ اگر کہا جائے: عِلْم والے کی صحبت میں رہا کیجیے! اب خاص شخص مراد نہیں ہو گا بلکہ ہر وہ


 

 



[1]... حدائقِ بخشش، صفحہ:19۔