Book Name:Milad Ki Barkatein
حضرت عَلّامہ محمود آلوسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس کا جواب دیا، فرماتے ہیں: لِتَشْرِیْفِہٖ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یعنی اس مقام پر (جبکہ ذِکْر قیامت کا تھا، اَہْلِ تقویٰ کو جنت میں ملنے والے انعام بیان ہو رہے تھے) رَبِّ کریم نے مِنْ رَّبِّکَ فرما کر اپنے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شَرْف و فضل بیان فرمایا ہے۔([1])
گویا اس میں غیر مسلموں کو بتایا جا رہا ہے کہ اے لوگوں! تمہارے یہ باطل خُدا تمہیں کچھ نہ دے سکیں گے، جہنّم سے بچانا اور جنّت عطا فرمانااسی سچّے خُدا کی عنایت ہے جس کے حُضُور محمد مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سجدہ کرتے ہیں،
سُبْحٰنَ اللہ ! غور فرمائیے! بات تھی قیامت کی، ذِکْر تھا اَہْلِ جنّت کی نعمتوں کا، اللہ پاک نے مِنْ رَّبِّکَ فرما کر اَہْلِ جنّت پر ہونے والی اپنی عطاؤں کا ذِکْر بھی کر دیا اور محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فضیلت بھی بیان فرما دی، اس طرح کی سینکڑوں مثالیں قرآنِ کریم میں موجود ہیں، ان سب سے پتا چلتا ہے کہ بات بات پر ذِکْر ِ مصطفےٰ کرنا قرآنِ کریم کا اُسْلُوب ہے۔
اے عاشقانِ رسول ! جب مزاجِ عشق ہی یہی ہے کہ بات بات میں ذِکْرِ محبوب کیا جائے، اب تو پھر ہے ہی ذِکْرِ محبوب کا مہینا۔ یہ تو وہ مبارک مہینا ہے، جس کا چاند نظر آتے ہی وہ سہانی گھڑیاں یاد آنے لگتی ہیں؛٭جب مکّہ مکرمہ پر نُور چھایا ہوا تھا٭ستارے زمین کی طرف مائِل تھے ٭جہان میں روشنیاں پھیل رہی تھیں٭آسمانوں کے دروازے کھول