Book Name:Lambi Zindagi kay Fazail
ایک مرتبہ ایک شخص حضرت عمر بن عبدُ العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کی خِدْمت میں حاضِر ہوا، سلام کے بعد دُعا دیتے ہوئے کہا: اللہ پاک آپ کو اس وقت تک زندہ رکھے جب تک زندہ رہنے میں آپ کے لیے بھلائی ہے۔
حضرت عمر بن عبدُ العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کی سوچ بڑی کمال تھی۔ ہم جیسوں کو کوئی لمبی زندگی کی دُعا دے دے تو اندر ہی اندر ایک خوشی ہوتی ہے، ذِہن میں خیال آتا ہے کہ ایسی نیک ہستی نے لمبی زندگی کی دُعا دی ہے، اب تو میں 100 سال جیوں گا (خیر! ایسے خیال آنے میں بھی کوئی بُرائی نہیں ہے، حضرت عمر بن عبدُ العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کی سوچ دیکھئے!) آپ نے فورًا فرمایا:مجھے یوں دُعا دو :اللہ پاک آپ کو پاکیزہ زندگی عطا کرے اور اچھوں کے ساتھ حشر کرے۔ ([1])
سُبْحٰنَ اللہ! اللہ پاک ہمیں بھی ایسی سوچ عطا فرمائے۔ بہر حال! ہم نے تَوَجُّہ زندگی کی لمبائی پر نہیں رکھنی، تَوَجُّہ اَعْمال پر رکھنی ہے۔
ہمارے آقا و مولیٰ، مکی مَدَنی مُصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمت میں سُوال ہوا: يَارَسُولَ اللَّهِ اَيُّ النَّاسِ خيرٌ؟ یعنی یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ! بہترین بندہ کون ہے؟ فرمایا: مَن طَالَ عُمْرُهٗ وحَسُنَ عَمَلُهٗ یعنی جس کی عمر لمبی اور اَعْمال اچھے ہوں، وہ بندہ بہترین ہے۔ پِھر سوال ہوا: أَيُّ النَّاسِ شَرٌّ؟ یعنی بُرا بندہ کون ہے؟ فرمایا: مَنْ طَالَ عُمْرُهُ وَسَآءَ