Book Name:Mout Ki Yaad Kay Fawaid
مگر آہ ! اسی اطمینان کی حالت میں کبھی موت کی آندھی چل جاتی ہے اور اچھے خاصے جاندار ، طاقت ور (Powerful ) نوجوان کو اندھیری قبر میں سُلا دیتی ہے۔ یہی زندگی کی حقیقت ( Reality ) ہے۔
زندگی نام رکھ دیا کس نے موت کا انتظار ہے دنیا
میں نے زِندگی کی حقیقت آنکھوں سے دیکھی
ایک اسلامی بھائی ہیں ، فیصل آباد G.P.O میں ملازِم ہیں ، ایک دِن وہ اپنے محلے کی مسجد کے امام صاحِب کے پاس آئے ، بڑے سہمے ہوئے تھے ، کہنے لگے : قارِی صاحِب ! آج میں نے زِندگی کی حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ہوا یوں کہ میرا ایک دوست مجھے ملنے کے لئے آفس آیا ، پُرانا دوست تھا ، میں خوش ہو کر مِلا ، گلے لگایا ، بٹھایا ، چائے منگوائی۔ اب چائے ٹیبل پر رکھی تھی اور ہم آمنے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے تھے ، چند سیکنڈ لگے ، ٹیبل پر رکھی چائے ، یونہی رکھی رہ گئی اور میرا دوست جس سے میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا ، اچانک موت کی نیند سو گیا۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سامان سو برس کا ہے پَل کی خبر نہیں
کسی شاعِر نے کیسی فِکْر انگیز بات کہی ، لکھتا ہے :
اِک یہ جہاں ، اِک وہ جہاں ، دونوں جہاں کے درمیاں
ہے فاصلہ اِک سانس کا ، جو آگئی تو یہ جہاں ، گر رُک گئی تو وہ جہاں
حُجَّۃُ الْاِسلام امام محمد بن محمد غزالی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ لکھتے ہیں : بنی اسرائیل کا ایک