Book Name:Mout Ki Yaad Kay Fawaid

مغرور ( Arrogant ) آدَمی اپنے بند کمرے میں تھا ، اچانک ایک شخص کمرے میں داخِل ہوا اور اس مغرور آدمی کی طرف لپکا ، اُس مغرور نے چِلّا کر کہا : تم کون ہو ؟ اور تمہیں اندر آنے کی اجازت کس نے دِی ؟ آنے والا شخص بولا : مجھے اِس گھر کے مالک نے اجازت ( Permission ) دی اور میں وہ ہوں جسے کوئی دربان نہیں روک سکتا ، مجھے بادشاہوں سے بھی اجازت لینے کی ضَرورت نہیں ہوتی ، نہ مجھے کسی کا دبدبہ ڈرا سکتا ہے ، نہ ہی مجھ سے کوئی مغر ور و سرکش ( Rebellious ) بچ سکتا ہے۔یہ سُن کر وہ مغرور آدمی خوف سے تھرّاتا ہوا منہ کے بَل گر پڑا ، پھر انتہائی ذِلّت ( Humiliation ) کے ساتھ منہ اُٹھا کر بولا : آپ مَلَکُ الْمَوت عَلَیْہِ السَّلَام معلوم ہوتے ہیں ؟ فرمایا : ہاں ! میں مَلَکُ الْمَوت ہوں۔اُس نے عرض کیا : کیا مجھے مہلت ( Respite ) مل سکتی ہے تا کہ توبہ کر کے نیکیوں  کا عَہْد کروں ؟ فرمایا : نہیں ، تمہاری سانسیں پورے ہو چکی ہیں۔بولا : مجھے کہاں لے جائیں گے ؟ فرمایا : اُس مقام پر جہاں تُو نے اعمال بھیجے ہیں اور اُس گھر کی طرف جو تُو نے تیّار کیا ہے۔بولا : افسوس ! میں نے نہ کوئی نیکیاں آگے بھیجی ہیں نہ ہی کوئی اچھا گھر تیار کیا ہے ۔ مَلَکُ الْمَوت عَلَیْہِ السَّلَام  نے فرمایا : پھر تو تجھے اُس بھڑکتی آگ ( Blazing Fire ) کی طرف لے جایا جائے گا جو تیرا گوشت پوست نوچ لے گی ۔ یہ کہہ کر مَلَکُ الْمَوت عَلَیْہِ السَّلَام نے اُس کی روح قبض کر لی اور وہ مُردہ ہو کر گر پڑا ۔ گھر میں کُہرام پڑ گیا ، چیخ و پکار اور رونا دھونا مچ گیا۔اِس واقِعے کے راوی حضرتِ یزید رَقَاشِی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اگر ان سوگواروں کو اُس کے  بُرے انجام کا پتا چل جاتا تو اِس سے بھی زیادہ رونا دھونا مچاتے ۔ ( [1] )


 

 



[1]... احیاء العلوم ، کتاب : ذکر الموت و ما بعدہ ، باب : الثالث فی سکرات الموت …الخ ، جلد : 4 ،  صفحہ : 567۔