Book Name:Teen Pasandida Sifaat
معلوم ہوا ہم سب کے سب اللہ پاک کے محتاج ہیں اور اللہ پاک غنی و بےنیاز ہے۔ لہٰذا یہ والی صفتِ غنا یعنی مکمل طور پر بےنیازی اِنْسَان کو ملنا ناممکن ہے۔
البتہ وہ غِنا جو بندے کی صفت ہے، یہ اَصْل میں غِنَا نہیں بلکہ فقر ہے۔ امام غزالی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فَقْر کے 6 درجات بیان فرمائے ہیں، ان میں جو فقر کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے، اسے غِنَا کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بندہ دُنیا کی ہر چیز سے، مال و دولت وغیرہ سے بےنیاز ہو جائے۔ لہٰذا وہ بندہ جس کے نزدیک مال ودولت کی کوئی حیثیت نہ ہو، مال ودولت ملنا یا نہ ملنا اس کے نزدیک برابر ہو، ایسے شخص کو غنی کہتے ہیں۔([1])
منقول ہے کہ اللہ پاک کے نبی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے آپ کے حَوَّاریوں نے پوچھا: اے رُوْحُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام! کیا وجہ ہے کہ آپ پانی پر ایسے چل لیتے ہیں جیسے ہم زمین پر چلتے ہیں مگر ہم ایسے نہیں چل سکتے؟ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: تمہارے نزدیک دِرْہم و دِینار کی کیا اہمیت ہے؟ حواریُوں نے عرض کیا: ہمارے نزدیک دِرْہم و دینار کی اچھی قدر و منزلت ہے۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: میرے نزدیک دِرْہم و دِینار اور مٹی کا ڈھیلا برابر ہیں۔ ([2])
سُبْحٰنَ اللہ! یہ ہے اَصْل غِنا اور یہی وہ وَصْف ہے کہ جس بندے میں یہ وَصْف پایا جائے اللہ پاک اُس بندے سے محبت فرماتا ہے۔