Book Name:Aqal Mand Mubaligh

اس حدیثِ پاک میں 2 طرح کے لوگوں کا ذِکْر ہے : (1) : وہ شخص جو بھلائی کی چابی اور بُرائی کا تالا ہے یعنی یہ ایسا شخص ہے جس کے ہاتھ پر نیکی اور بھلائی کو جارِی کر دیا گیا ہے ، یہ لوگوں پر صدقہ و خیرات کرتا ہے ، دُکھ دَرْد کے ماروں کی حاجت پُوری کرتا ہے ، جاہِلوں کو عِلْم سکھاتا ہے ، بھٹکے ہوؤں کو سیدھا رستہ دکھاتا ہے ، بےنمازیوں کو نمازی بناتا ہے ، فیشن پرستوں کو سنتوں کا پیکر بناتا ہے ، جو دِین سے دُور ہوں ، اُن کے دِل میں دِین کی محبت پیدا کرتا ہے([1]) اور عَلَّامہ مناوی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : اس شخص کی یہ شان ہے کہ اسے دیکھ کر لوگوں کو نیکی یاد آتی ہے ، یہ جہاں جاتا ہے ، نیکیوں کی دُھوم ڈال دیتا ہے ، بولتا ہے تو اس کے منہ سے نیک باتیں نکلتی ہیں ، سوچتا ہے تو نیکی کی بات سوچتا ہے ، اس کا باطِن بھی نیکی  پر ہوتا ہے یہاں تک کہ جو بندہ اس کی صحبت میں بیٹھ جائے ، وہ بھی نیک بَن جاتا ہے([2]) (2) : اور دوسرا وہ شخص ہے جو بُرائی کی چابی اور بھلائی کا تالا ہے یعنی یہ پہلے والے کے بالکل اُلٹ ہے ، یہ جہاں جاتا ہے ، بُرائی کا بیج بوتا ہے ، اس کی زبان سے بُرائی نکلتی ہے ، اس کے ہاتھ سے بُرائی ظاہِر ہوتی ہے ، اس کی سوچ بھی بُرائی پر مبنی ہوتی ہے ، غرض یہ خود بھی بُرا ہے اور دوسروں تک بھی بُرائی ہی پہنچاتا ہے۔

ان دونوں شخصوں میں جو پہلا ہے ، جو بھلائی پھیلاتا ہے ، اس کے متعلق حدیثِ پاک میں فرمایا : اس کے لئے خوشخبری ہے اور دوسرا جو بُرائی پھیلاتا ہے ، اس کے متعلق ارشاد ہوا : اس کے لئے ہلاکت ہے۔

اس جگہ ایک ایمان افروز مدنی پھول علَّامہ مناوی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے دیا ، فرماتے ہیں :


 

 



[1]...تَنْوِیر شرجامِع صغیر ، جلد : 4 ، صفحہ : 113 ۔

[2]...فیض القدیر ، جلد : 2 ، صفحہ : 528 ، زیرِ حدیث : 2465۔