Book Name:Teen Psandida Sifat

دوسری جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :

هُدًى لِّلنَّاسِ  (پارہ2 ، سورۂ البقرہ : 185) 

ترجمہ کنزُ العِرفان : جو لوگوں کے لئےہدایت۔

امام رازی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اِن دونوں آیتوں کو ملا دیا جائے تو نتیجہ نکلے گا کہ حقیقت میں اِنْسان کہلانے کا حق دار وہ بندہ ہے جو متقی ہے ، جو متقی نہیں وہ حقیقت میں اِنْسان کہلانے کا بھی حق دار نہیں۔ ([1])

اس بات کو ایک مثال سے سمجھئے! مثال کے طور پر ایک بَس مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف جا رہی ہے اور اس میں 72 مُسَافِر بیٹھے ہیں ، اگر کوئی شخص کہے کہ ڈرائیور 72 مُسَافِروں کو مدینہ منورہ لے جارہا ہے ، تو یہ بھی دُرُست ہے اور اگر کوئی کہے کہ ڈرائیور پُوری بَس کو مکے سے مدینے کی طرف لے جا رہا ہے تو یہ بھی دُرُست ہے ، دونوں کا مطلب ایک ہی بنے گاکہ 72 مُسَافِر جو بَس میں بیٹھے ہیں ، ڈرائیور بَس کو چلاتے ہوئے انہیں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ لے جا رہا ہے۔

اسی طرح اللہ پاک نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا کہ قرآنِ کریم تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے ، دوسرے مقام پر فرمایا : قرآنِ کریم متقی لوگوں کے لئے ہدایت ہے۔ ان دونوں آیتوں کو ملا دیا جائے تو مطلب یہی بنے گا کہ جو اِنْسَان ہے وہی متقی ہے اور جو متقی ہے وہی حقیقت میں اِنْسان کہلانے کا حق دار ہے۔

عُلمائے کرام نے تقویٰ کے 7 درجات بیان فرمائے ہیں ، ان میں سے پہلا درجہ ہے : ایمان۔ یعنی جس شخص نے سچے دِل سے کلمہ پڑھ لیا ، دائرۂ اسلام میں داخِل ہو گیا ، اگرچہ اس کا تقویٰ ابتدائی درجے کا ہے مگر ہے یہ بھی متقی۔ لیکن وہ شخص جس نے کلمہ ہی نہیں


 

 



[1]...تفسیرکبیر ، پارہ : 1 ، سورۂ بقرہ ، زیرِ آیت : 2 ، جلد : 1 ، صفحہ : 268 ۔