Book Name:Faizan e Sayeda Khaton e Jannat

پاک جس حال میں رکھے ، اسی حال میں خوش رہتی ہیں۔ “

یہ ہے وہ رُتبہ کہ حقیقت میں جسے فقر کہا جاتا ہے۔

(2) : پھر اسی حکایت میں ایک دوسرا مَدَنی پھول بھی ہے ، دیکھئے! سیِّدہ فاطمہرَضِیَ اللہُ عَنْہَا اپنے لئے کچھ نہیں مانگتیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ پاک سے مانگتی ہی نہیں ہیں ، نہیں ، ایسا نہیں ہے ، دُعا مانگنا تو عِبَادت ہے ، دُعا ضرور مانگتی ہیں مگر اپنے لئے نہیں ، مسلمانوں کے لئے ، اپنے باباجان ، رحمتِ عالمیان  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی دُکھیاری اُمّت کے لئے دُعائیں مانگتی ہیں۔ سُبْحٰنَ اللہ!

وہ ہمارے نبی ، اُن کے ہم اُمَّتی        اُمَّتی تیری قسمت پہ لاکھوں سلام

تیرے حق میں دُعا ، کرتی ہیں فاطمہ       اُمَّتی تیری قسمت پہ لاکھوں سلام

بعض دفعہ غریب لوگ حَسَرت سے کہا کرتے ہیں : کاش! اللہ پاک ہمیں بھی مال عطا فرماتا تو ہم بھی دوسروں کی مدد کرتے ، نیکیاں کماتے۔ ایسوں کے لئے اس حکایت میں کافِی دَرْس ہے۔ اللہ پاک کا یہ جو ارشاد ہے :

مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)  (پارہ1 ، سورۃالبقرۃ : 3)                                        

ترجمہ کنز الایمان : ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اُٹھائیں۔

اس میں لفظ “ رِزْق (روزی) “ استعمال ہوا ، عُلَمائے کرام نے اس لفظ کو عام رکھا ہے ، یعنی رِزْق صِرْف مال کو نہیں کہتے بلکہ اللہ پاک کی دِی ہوئی ہر نعمت ہی رِزْق ہے اور اللہ پاک کی دی ہوئی ہر نعمت کو راہِ خُدا میں خرچ کرنا صدقہ ہے۔ ([1]) مثلاً *اللہ پاک نے ہاتھ عطا فرمائے ،  *ہاتھوں سے راستے کی تکلیف دِہ چیز ہٹا دینا صدقہ ہے ، *اللہ پاک نے پاؤں


 

 



[1]...تفسیر نعیمی ، پارہ : 1 ، البقرۃ ، تحت الآیۃ : 3 ، جلد : 1 ، صفحہ : 137۔